آسامی زبان میں ترجمہ کرلیا ہے، اسی طرح ’’محقق ومدلل جدید مسائل ‘‘ کی دو جلدیں اور ’’کرسی پر نماز‘‘ کا مسئلہ ، ’’ٹوکن دے کر زمین کی خرید وفروخت‘‘ کا مسئلہ’’قربانی کے مسائل‘‘، غرضیکہ مذکورہ تمام کتابیں دلائل سے آراستہ وپیراستہ ہیں، اور علما وطلبہ میں بڑی مقبول ہیں، آپ کی لکھی گئی کتابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ مسائلِ فقہیہ پر حتی المقدور قرآنی آیات، اس کے بعد احادیثِ نبویہ اور پھر تائید کے لیے فقہاء کی عبارتوں سے استدلال کی بھرپور کوشش کار فرما ہوتی ہے۔
مفتی صاحب کے علمی ذوق کے پروان چڑھنے میں فقیہ الہند حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہٗ کی صحبت اور خاص توجہات کا بھی اہم رول ہے، آپ ہی نے مفتی صاحب کو والد صاحب کے مطالبے پر جامعہ میں خدمتِ تدریس کے لیے اِرسال کیاتھا۔
مفتی صاحب ہر سال جامعہ کے سالانہ جلسے کے لیے والد محترم کے اِیما پر ’’مُکالَمات‘‘ مرتب فرماتے ہیں، اور یہ مکالمات خالص علمی اسلوب وپیرائے میں اور بالکل عدالتی طرز پر ہوتے ہیں، جن میں علمی اسلوب کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے ایسے مسائل سے تعرض کیا جاتا ہے، جس میں امت کا ابتلاہے ، امت کوان مسائل سے واقف کراکر ، اس کے سامنے اسلامی شریعت کی روشنی میں اس کا صحیح حل پیش کیا جاتاہے۔ والد محترم (رئیس جامعہ)بھی بڑی دل چسپی سے انہیں سنتے ہیں، اور جلسے سے قبل اہتمام کے ساتھ بار بار دریافت فرماتے رہتے ہیں کہ مفتی صاحب نے مکالمہ تیار کیا یا نہیں؟ اور جب جلسے میں پیش کیا جاتا ہے، تو لوگ بہت دل چسپی سے ہمہ تن گوش ہوکر اس کو سنتے ہیں،آج انہی’’ فقہی، فکری واصلاحی مکالمات‘‘ کو کتابی شکل میں پیش کیا جارہا ہے، یقینا ان کی طباعت امت کے لیے ایک قیمتی تحفے سے کم نہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کی محنتوں کو شرفِ قبولیت سے نوازے، امت کو آپ کے علم سے خوب نفع پہنچائے، اور آپ کو مزید زورِ قلم عطا فرمائے، اور آخرت کے لیے ذخیرہ بنائے، اور امت کواس کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
حذیفہ وستانوی
۷؍ ربیع الاول، ۱۴۳۸ھ