(۹) مفتی ماجد صاحب(سیٹھ اور مزدورکی طرف متوجہ ہوکر):
مالک ومزدور ، آقا وغلام ، کاشت کار وزمین دار ، ہیڈ ماسٹر وٹیچرس ، منتظم واساتذہ ، سب انسانی حقوق میں یک ساں اور برابر ہیں، فریقِ اول کو اپنے آپ کو برتر اور فریقِ ثانی کوکم تر سمجھنے کا کوئی حق نہیں،کیوں کہ یہ تقسیم- خدائی تقسیم ہے،ارشادِ ربانی ہے:{نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِيْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا} ۔ ’’ہم نے ان کی روزی تقسیم کررکھی ہے ،اور ہم نے ایک کو دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے، تاکہ ایک دوسرے سے کام لیتا رہے‘‘۔ (سورۂ زخرف:۳۲)
آیتِ مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ مالک اور مزدور کے درمیان جو نظام ہے، یہ خدائی نظام ہے ،اس میں فریقِ اول کے کمال کو کوئی دخل نہیں ہے، کیوں کہ تاجر ، صنعت کار اور زمین دار کو مزدورکی ، اور مزدورواجیر کو روزگار کی ضرورت ہوتی ہے، اور ان دونوں کی ضرورت ہی ،روزگار فراہم کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ ، وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ ، وَدِیْنَکُمْ وَاحِدٌ ، وَنَبِیَّکُمْ وَاحِدٌ ، وَلا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلٰی عَجَمِيٍّ ، وَلا لِعَجَمِيٍّ عَلٰی عَرَبِيٍّ ، وَلا أَحْمَرَ عَلٰی أَسْوَدَ ، وَلا أَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ - إِلَّا بِالتَّقْوَی ‘‘ ۔ (کنز العمال:۳/۴۲،رقم:۵۶۵۲)
اگر فریقِ اول- فریقِ ثانی کو کم تر سمجھے گا، تو پھر آپسی اختلافات وتنازُعات جنم لیتے ہیں۔ اس لیے منتظم، پرنسپل اور مالک کو چاہیے کہ اپنے ماتحتوں کی استطاعت کے مطابق ان سے کام لیں، اگر کبھی زیادہ کام لے لیں، تو اس کی اُجرت بھی ادا کردیں، نیز کام ہوجانے کے بعد اپنے ماتحتوں کو اُجرت کے لیے بار بار چکر نہ کٹوائے،یعنی ٹال