(۳) ضرورتاً قرض مانگے، تو بشرطِ استطاعت اسے قرض دینا۔
(۴) کوئی برا کام کر بیٹھے، تو پردہ پوشی کرنا۔
(۵) اسے کوئی نعمت ملے، تو اس پر مبارک باد دینا،اور مصیبت پہنچے تو تعزیت کرنا۔
(۶) اپنی عمارت کو اس کی عمارت سے اِس طرح بلند نہ کرنا کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہوجاوے۔
(۷)اپنے گھر اچھا کھانا پکے، تو یہ کوشش کی جائے کہ ہانڈی کی مہک اس کے (بچوں کے لیے) باعثِ ایذا نہ ہو،اِلا یہ کہ تھوڑا سا اُس کے گھر بھی بھیج دو۔
(۸)اس کی دینی تعلیم وتربیت اور عملی واخلاقی اصلاح کرے۔
مختصر یہ کہ ہم سایہ مریض کی عیادت، مُشایَعَتِ جنازہ ، مالی اِعانت ، عیوب پر پردہ پوشی، خوشی اور غمی کے احساسات میں شرکت اور اِیذا دہی کی تمام ممکنہ صورتوں کا سدِ باب، اور ہم سایہ کے نازک احساسات کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ امتِ مسلمہ کے باہمی تعلقات کی استواری اور ان کی ملی زندگی کی پائیداری کا دار ومدار جس طرح خاندان کی مضبوطی پر ہے، اسی طرح اجتماعی او رملی زندگی کے روابط کی استواری پر بھی ہے، اور ان روابط کا آغاز ہم سائیگی کے تعلقات سے ہوتا ہے ، اس لیے امتِ مسلمہ کا فرض ہے کہ ہم سائیگی کے حقوق کی پاسدار ی کرے۔
شاہد:شکریہ مفتی صاحب !
آج کے بعد میں اپنے پڑوسی/ہم سایہ کو کسی قسم کی گزند وتکلیف نہیں پہنچاؤں گا۔