کس فرد کے ساتھ کیسے رہنا چاہیے؟لیکن آج کا معاشرہ چوں کہ ہمسائیگی کے تصو ر سے تہی دامن ہوچکا ہے ، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا تو دور کی بات ہے ، یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے ہمسائے میں، یاہمارے اُوپر والے فلیٹ میں، یا نیچے والے فلیٹ میں رہنے والا کون ہے؟ کسی نے کیا خوب کہاہے:
فرد، قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں!
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں!
اس لیے میں آپ کے سامنے پڑوسی کے متعلق چند حقوق بیان کیے دیتا ہوں:
اولاً یہ سمجھ لیں کہ ہمسائے تین طرح کے ہیں؛
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَالْجَاْرِ ذِيْ الْقُرْبٰی وَالْجَاْرِ الْجُنُبِ وَالْصَّاْحِبِ بِالْجَنْبِ} ۔ ’’ہم سایہ قریب اور ہم سایہ بیگانہ، اورپہلو کا ساتھی۔ ‘‘ (سورۂ نساء:۳۶)
’’ہم سایہ قریب‘‘ یعنی جس کا گھر متصل ہو، یامسلمان ہم سایہ ، یارشتہ دار ہم سایہ۔
اور’’ ہم سایہ بعید(بیگانہ)‘‘ یعنی جس کا گھر دور ہے ، یا غیر مسلم ہم سایہ ، یا جس ہم سایہ سے رشتہ داری کا تعلق نہ ہو۔
اور ’’ پہلو کا ساتھی‘‘ یعنی جو شخص عارضی طور پر کسی کام میں رفیق ہو، مثلاً: کلاس فیلو، ملازم ساتھی ، سفر کا ساتھی وغیرہ۔
(۱)ــپڑوسی اگر بیمار ہوجائے، تو اس کی عیادت اور خبر گیری کی جائے۔
(۲)انتقال کے بعد جنازہ کے ساتھ جانا، اور تدفین کے کاموں میں ہاتھ بٹانا۔