رکھے ہیں، کوئی درس وتدریس میں مشغول ہے، تو کوئی وعظ وتقریر میں منہمک، کوئی تصنیف وتالیف میں لگا ہے، تو کوئی ارشاد وسلوک میں مصروف۔ الغرض! ہر عالمِ دین اپنے اس فرض سے عہدہ برآ ہونے کے لیے حتی المقدور کوشش کر رہا ہے۔ اللہ پاک ان تمام کوششوں کو قبول فرمائے، اور دنیا وآخرت میں اس کے ثمراتِ حسنہ سے مالا مال فرمائے۔ آمین!
تبلیغِ دین جب مقصود ہے، تو اس کے لیے دین کے دائرے میں رہتے ہوئے جتنے جائز ومباح وسائل ہوسکتے ہیں، انہیں اختیار کرنا ، نہ صرف جائز بلکہ وہ بھی مقصود ہوں گے، کیوں کہ فقہ کا قاعدہ ہے: ’’ إنَّ الْوَسِیْلَۃَ أوِ الذَّرِیْعَۃَ تَکُوْنُ وَاجِبَۃً إذَا کَانَ الْمَقْصَدُ وَاجِبًا ‘‘- نیز: ’’ حُکْمُ الْوَسَائِلِ حُکْمُ الْمَقَاصِدِ ‘‘-اِسی زاویۂ فکر کو لے کر، مفکرِ قوم وملت، خادمِ کتاب وسنت، حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم نے ، اِس حقیر کو اس بات کا مکلف کیا کہ ہر سال، سالانہ اجلاس کے موقع پر آپ (دار الافتاء) کی طرف سے ایک ایسا علمی، فقہی، فکری اور اصلاحی مُکالَمہ آنا چاہیے، جو معاشَرے میں موجود برائیوں کو اُجاگر کرتا ہو، اور شرعی اُصولوں کی روشنی میں ان کا حل بھی پیش کیا گیا ہو، اس لیے کہ مکالَموں کے ذریعے ، دینی مضامین وہدایات بڑی آسانی سے لوگوں تک پہنچائی جا سکتی ہیں،کہ مکالموں میں اُن کی دل چسپی پائی جاتی ہے۔
آپ دامت برکاتہم کے اس امرِ عالی کے بعد سے اب تک تقریباًگیارہ مُکالَمے پیش کیے جاچکے ہیں، ہر طبقے کے لوگوں سے اُنہیں خوب پذیرائی حاصل ہوئی، اور خود حضرت والا دامت برکاتہم نے نہ صرف ان کو پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھا، بلکہ بہت زیادہ حوصلہ افزا کلمات سے بھی نوازا۔فجزاہم اللّٰہ خیر الجزاء !
جامعہ کا تعلیمی مِشن چوں کہ پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے، اور ہر بڑے مرکز میں تعلیمی سال کے اختِتام پر بڑے بڑے ا جلاس ہوتے ہیں، جن سے اطراف واکناف کے لوگوں کو بڑا فائدہ پہنچتا ہے، حضرت دامت برکاتہم کی یہ فکر ہے کہ اِن جلسوں میں جہاں بڑے علمائے کرام کے وعظ ونصیحتیںہوں، وہیں پُر مغزودل چسپ، علمی اور اِصلاحی مُکالَمے بھی پیش کیے جائیں، تاکہ دینی واصلاحی باتیں بآسانی عوام الناس کے دلوں تک پہنچائی جاسکیں، اور ان جلسوں کی اِفادیت دو بالا ہوجائے۔