اِس تعلیم کا تقاضا یہ ہے کہ روزِ مرہ کی زندگی میں، ہم ایک دوسرے کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں، جیسے ایک بھائی دوسرے بھائی کے ساتھ کیا کرتا ہے،کہ آپس میں ایثار ، مروّت، رَواداری ، تحمل اور اپنائیت کا مظاہَرہ ہو، لیکن جب روپئے پیسے کے لین دین، جائداد کے معامَلات اور شرکت وحصہ داری کا مسئلہ آجائے، تو اسے اس طرح انجام دے، جیسے دو اجنبی شخص انجام دیا کرتے ہیں، یعنی معاملے کی ہر بات صاف صاف ہو، اُس میں کوئی اِبہام باقی نہ رہے، ورنہ ایک وقت ایسا آجاتا ہے، کہ معاملات کی ڈور اُلجھ کر اتنی پیچیدہ ہوچکی ہوتی ہے، کہ منصفانہ تصفیہ کے لیے اُس کا سِرا پکڑنا مشکل ہوجاتا ہے، اور ہر شخص واقعات کو اپنے مفاد کی عینک سے دیکھتا ہے، اور مُصالَحت کا کوئی ایسا فارمولہ وضع کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے، جو تمام متعلقہ فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہو، اس لیے جب بھی کسی سے، کوئی بھی معاملہ کیا جائے، اِس بات کا خیال رکھا جائے، کہ اُس کی ہر ہر بات صاف ہو، اور اُس میں کوئی اِبہام نہ ہو۔ وفقنا اللہ لما یحب ویرضی !
ربناتقبل منا انک انت السمیع العلیم!وتب علینا إنک أنت التواب الرحیم!
آمین یارب العالمین!
پیش کار:
آج کی یہ عدالتی نشست برخاست ہوتی ہے!