ہے، بالکل صحیح بات ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اپنے حق کو اس طرح استعمال کریں، جس سے کسی دوسری شخصیت کی عزت وآبرو داغ دار ہو، اور اُسے سنگین مسائل سے دوچار ہونا پڑے، اس لیے کہ شریعتِ اسلامی کا مزاج ہے: ’’ لِکُلِّ صَاحِبِ حَقٍّ أَنْ یَّسْتَوْفِيَ حَقَّہٗ إِلَّا بِشَرْطِ السَّلَامَۃِ ‘‘ - کہ ہرصاحبِ حق کو، اپنے حق کی وصولی کا اختیار ہے، مگر بشرطِ سلامتی، اس لیے وکیلِ دفاع کا یہ استدلال بالکل غلط اور بے جا ہے۔
جج صاحب :
طرفین کے دلائل کی سماعت کے بعد، عدالت اِس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مدعیٰ علیہ نے واقعۃً مدعی پر ظلم وزیادتی کی، اس پر بے بنیاد الزامات لگاکر اسے جیل بھجوایا، جس کے نتیجے میں اس کی عمرِ عزیز کا ایک بڑا حصہ یوں ہی برباد ہوگیا، اس کی ذہنی وجسمانی تکلیفوں کا سبب بنا، سماج ومعاشرہ، اعزہ واقارب اور اس کے متعلقین میں اس کی عزت وآبرو کو مجروح کیا، اور اس کے جیل میں پڑے رہنے کی وجہ سے ایک طویل مدت تک ان تمام لوگوں کے حقوق متأثر ہوئے، جو اس کی ذات سے متعلق تھے۔اس لیے عدالت؛ تعزیراً، وبطورِ سزا، مدعیٰ علیہ کی اسمبلی کی رکنیت ختم کرتی ہے، اور مقاصدِ شرعیہ کی دفعہ؍۲ (حفاظتِ نفس) ، اور تعزیراتِ ہند کی دفعہ چار سو ننانوے (۴۹۹) ، اور دفعہ پانچ سو (۵۰۰) کے تحت اس پر پانچ لاکھ (۵۰۰۰۰۰) کا ہرجانہ واجب کرتی ہے۔
OoOoOoOoOoO