نام پر ہراساں کیا، غلط وبے بنیاد الزامات پر مبنی چارج شیٹ عدالت میں داخل کرکے، عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔لیکن اللہ بھلا کرے ہمارے دوست، ماہرِ قانون، وکیل ؛ دیش پانڈے صاحب کا، کہ انہوں نے حق اور سچ کا ساتھ دیتے ہوئے، اس کیس کی انتہائی کامیاب پیروی کی، اور دس سال بعد ہمارے مؤکل؛زید (عالم صاحب) کو ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۶ء کو سیشن کورٹ نے باعزت بری کردیا۔
جناب جج صاحب!میرے مؤکل کو گرچہ باعزت بری کردیاگیا، لیکن دس سال کا ایک طویل عرصہ، جو انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑا،
کیا ان کی زندگی کے اِس قیمتی عرصے کو دوبارہ لایا جاسکتا ہے؟
ان دس سالوں میں ان کی جو تعلیمی ورفاہی خدمات متأثر ہوئیں، کیا ان کا کوئی بدل ہوسکتا ہے؟
بلاوجہ ان کو جو ذہنی ، جسمانی اذیتیں اور تکلیفیں دی گئیں اُن کا مداوا ممکن ہے؟
اُن کی غیر موجودگی میں ان کے بیوی بچوں اور متعلقین کے جو حقوق تلف ہوئے، اُن کی تلافی ممکن ہے؟
جب تک ان کی بے گناہی اور برأت عدالت کے ذریعے ظاہر نہیں ہوئی ، معاشرے میں اُن کی شبیہ مشکوک رہی، جس کی وجہ سے ان کی عزت وشخصیت کو جو نقصان پہنچا، اُس کی بھرپائی ممکن ہے؟ …ظاہر ہے یہ ممکن نہیں!
لہٰذا میں جج صاحب سے گزارش کرتا ہوں، کہ مقاصد شرعیہ کی دفعہ؍ ۲(حفاظتِ نفس)، اور ملکی قانون کی دفعہ دو سو چورانوے (۲۹۴)، دفعہ چار سو ننانوے