صاحب کو پیڑے کھلائے تھے، یہ کہہ کر کہ:
میرے ابو ’’ریٹائر‘‘ ہوئے ہیں، اس خوشی میں انہوں نے یہ پیڑے بھیجے ہیں۔
خالد: ہااااں… یاد آیا، یا د آیا!… تو اب اس کے ساتھ کیا ہوا؟
ماجد: کچھ ہوا نہیں، بس ؛ سب محلہ ، بستی والے اس کے ساتھ ہوگئے ہیں۔
خالد: وہ کیسے؟
ماجد: آپ کو پتہ ہے! اس کے والد کی معاشی حالت اتنی مضبوط نہیں تھی، گھر کے مصارف زیادہ تھے، لیکن ہمارے اس کلاس فیلو کا نصیبہ چمک گیا، آج وہ کروڑوں کا مالک ہے، شہر سے باہر ایک شان دار بنگلے میں اپنی بیوی بچوں اور والدین کے ساتھ رہائش پذیر ہے، عمدہ مرسیڈیزکار- زیرِ استعمال ہے، ہر وقت دس پانچ لوگ ساتھ لگے رہتے ہیں، پورے علاقے میں اس کا نام چلتا ہے۔
خالد: ماجد میاں! یہ تو بتائیے کہ اس کے حالات آناً فاناً اتنے جلدی کیسے بدل گئے؟کیا کوئی دفینہ ہاتھ آگیا؟
ماجد: نہیںبھئی! کوئی دفینہ وفینہ ہاتھ نہیں آیا، بلکہ اس نے اپنے والد سے ایک معمولی رقم لے کر، زمین کی خریدوفروخت کا کاروبار شروع کیا، اور اللہ نے اس میں خوب برکت دی، اور میں نے بھی ایک مولانا سے سنا ہے کہ ’’تجارت میں اللہ تعالیٰ نے 90 % رزق رکھا ہے، اور دیگر ذرائع میں محض 10%‘‘۔
خالد: ہوووں!… اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہم اور آپ جو پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کررہے ہیں، اور ہمہ وقت گھر کے اخراجات اور کچن میں پریشان