مہیا کیے جائیں، جو اس کی استطاعت میں ہوں، اپنی مالی حیثیت کے مطابق مکان، غذا اور کپڑے لَتّے کا حلال طریقے سے انتظام کریں، اس کی بہترین پرورش کریں، اس کو اچھے اخلاق سے آراستہ کریں، اور بری صحبتوں سے اسے روکیں، سات سال کی عمر تک اُسے نماز اور اخلاق کے بنیادی اُصول سکھا اور سمجھا دیں۔کیوں کہ،اللہ پاک کا ارشاد ہے: {یٰآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوٓا أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ} ۔ ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ، جس کاایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘ (سورۃ التحریم :۶)
صحیح بخاری میں امام مجاہد رحمہ اللہ آیتِ مذکورہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ {قُوٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ} أَوْصُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَأَدِّبُوْہُمْ ‘‘ ۔’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال (بیوی، بال بچوں) کو تقویٔ خداوندی کی تعلیم دو، اور انہیں حسنِ تربیت سے آراستہ کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)
حدیث پاک میں وارد ہے: ’’ مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِّنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ ‘‘ ۔ ’’ والدین کا اپنی اولاد کو سب سے بہترین تحفہ حسنِ ادب ہے۔‘‘ (ترمذي)
اسی طرح آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے: ’’ مَنْ وُلِدَ لَہٗ وَلَدٌ فَلْیُحْسِنْ اِسْمَہٗ ، وَأَدَّبَہٗ ، فَإِذَا بَلَغَ فَلْیُزَوِّجْہُ ، فَإِنْ بَلَغَ فَلَمْ یُزَوِّجْہُ فَأَصَابَ إِثْمًا ، فَإِنَّمَا إِثْمُہٗ عَلٰی أَبِیْہِ ‘‘ ۔ ’’جس شخص کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو،اُسے چاہیے کہ اس کا اچھا سا نام رکھیں، اسے ادب سکھائیں، اور بالغ ہونے پر اس کا نکاح کردیں، اگر وہ بالغ