وکیلِ استغاثہ کی باتوں میں سچائی وصداقت نہیں ہے، میرے مؤکل نے اس بچی کا اِغوا نہیں کیا تھا، بلکہ واقعی پیار ومحبت ہی میں اپنے پاس بلایا تھا، اور سچ مُچ وہ اسے کھلونے اور کھانے کی چیزیں دلوانے کے لیے، اپنے ساتھ بازار لے جارہا تھا، اور آپ ﷺکے ایک ارشاد:
’’ مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا فَلَیْسَ مِنَّا ‘‘ ۔
…پرعمل پیرا ہورہا تھا، لیکن نفس وشیطان اس پر غالب آگئے، جس کی وجہ سے اس سے یہ تمام افعال سر زد ہوگئے۔
جناب جج صاحب! آپ بھی اِس اَمر سے بخوبی واقف ہیں کہ -نفس وشیطان- کا مکر کیسا ہوتا ہے؟ اور وہ کس طرح آپ جیسے، ذہین، فطین، فہیم ، متین اور دانش وروں کو بھی اپنے دامِ فریب میں جکڑ لیتا ہے، تو میرا مؤکل (اشارہ کرکے) بے چارہ، انتہائی سیدھا سادہ ، بھولا بھالا انسان ہے، بھلا وہ کیوں کر اس کے فریب سے بچ سکتا تھا، …اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ابوالبشر ؛حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام جب اس کے مکر وفریب سے نہیں بچ سکے، تو اُن کی اولادکیسے بچ سکتی ہے؟…لہٰذا آپ سے میری گزارش ہے، کہ میرے مؤکل کے اِس جرم پر قلمِ عفو پھیرکر ، اُسے بری کردے، وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سچی پکی توبہ کرکے، دو بارہ اس طرح کی حرکت نہیں کرے گا۔
OoOoOoOoOoO