آیت میں عموم ہے، اس کے تحت وہ تمام اشیائے مطعومات داخل ہیں، جو بطورِ لذت یا رغبت کے طور پر کھائی جاتی ہیں، نیز قہوہ اور نتن(بدبودار درخت) کی اِباحت وجوا ز پر یہ آیت صریح دلالت کرتی ہے، جو طبیعت کے لیے باعثِ لذت اورحصولِ ِمنفعت کا بھی ذریعہ ہے، اور وہ نشہ آور اشیاء میں سے بھی نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی حرمت پر کوئی آیتِ قرآنی دلالت کرتی ہے، اور نہ حدیثِ نبوی، اور نہ قواعدِشرعیہ اس کے متقاضی ہیں۔‘‘
( ترویح الجنان للعلامہ اللکنوی:ص/۳۵، ملحقہ مع رسائل اللکنوی:ج/۲)
اسی طرح علامہ ابن نجیم مصری- رحمہ اللہ-’’ الأشباہ والنظائر‘‘میں فرماتے ہیں:
’’ اَلأَصْلُ فِيْ الأَشْیَائِ الإِبَاحَۃُ حَتَّی یَدُلَّ الدَّلِیْلُ عَلٰی عَدَمِ الإبَاحَۃِ ‘‘۔
’’چیزوں میں اصل اِباحت ہے، جب تک کہ اس کی حرمت پر کوئی دلیل قائم نہ ہو۔‘‘
نیز بیڑی، سگریٹ، تمباکو اور گٹکھا وغیرہ کا استعمال مضرِ صحت بھی تو نہیں ہے، کہ مملکت کے قوانینِ حفظانِ صحت کی خلاف ورزی لازم آتی ہو۔
اب میں اپنی دلائل کو سمیٹتے ہوئے بطورِ خلاصۂ دلائل یہ عرض کرتاہوں، کہ جب بیڑی، سگریٹ، تمباکو اور گٹکھا وغیرہ کی حرمت پر، نہ نصِ قطعی موجود ہے، اور نہ فقہا کے اقوال، اور نہ کسی قاعدۂ شرعیہ سے اس کی حرمت کو ثابت کیا جاسکتاہے، تو میرے مؤکل کے خلاف جو مقدمہ دائر کیا گیا ہے، وہ سراسر ظلم وزیادتی پر مبنی ہے، اس لیے اُسے بری قرار دے کر، عدالتِ عالیہ… حکومت کے اِن اہل کاروں پر قانونِ اسلام کی دفعہ ۳؎ ؛بابت حر متِ عرض( ہتکِ عزت)کے تحت (5000) روپئے کا تاوان واجب کریں ۔