کھلونے اور کھانے کی چیزیں دلوانے کا لالچ دے کر، اُسے اپنی کار میں بٹھاکر شہر سے دور، سنسان جگہ لے جاکر، اس معصوم ونابالغ بچی کی نہ صرف عصمت دری کی، بلکہ اپنی ہوس کو پورا کرنے کے بعد، اُس کو قتل کرکے ، اُس کی نعش کو قریبی تالاب میں پھینک دیا۔
جناب جج صاحب! میرے مؤکل ڈاکٹر عبد الرحمن کی یہ اکلوتی بیٹی تھی، جس کے مستقبل کو روشن وتابناک بنانے کے لیے، وہ اور اُن کی بیوی رات دن محنت کر رہے تھے، کہ ہم اپنی اِس بچی کو اعلیٰ دینی ودنیوی تعلیم سے آراستہ کریں گے، تاکہ بڑی ہوکر، جہاں وہ اپنے والدین کے لیے باعثِ صدافتخار ہو، وہیں مسلم قوم کا سر فخر سے اونچا کرے۔
جناب جج صاحب! ان دو گواہوں کی گواہی، اور جائے واردات کے جائزے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے ،کہ ملزم نے جہاں اس کے والدین کے سامانِ مسرت وشادمانی اور مرکزِ امید کو چھین لیا، وہیں وہ ان کے دماغی توازُن کھوجانے کا سبب بھی بنا ہے، جس کی وجہ سے پوری بستی ایک دین دار، نیک صفت، انسانیت کی ہم درد؛ میاں بیوی کی طبی خدمات سے محروم ہوگئی، اور اس واقعے کو پڑھ ، سن کر پوری انسانیت شرم سار ہوگئی ہے۔
ملزم… اپنی اِن گھناؤنی حرکتوں کی وجہ سے زندہ رہنے کا حق دار نہیں ہے، شرعی قانون کی دفعہ نمبر ؍۲ ، ۳؍ اور ۵؍-حفاظتِ نفس ، حفاظتِ نسل، حفاظتِ عقل- کی خلاف ورزی -کے تحت، مجرم تختِ دار کا مستحق ہوچکا ہے، نیز انسانی عقلیں بھی