طرح مکان کرایہ کا نہیں، بلکہ خود اُس کی ملکیت کا ایک شان دار بنگلہ ہے، جس کی مالیت تقریباً دو کروڑ روپئے ہیں۔
(یہ ہیں وہ تمام کاغذات …جج کو کاغذات سونپتے ہوئے… جن میں ملزم کے متعلق پوری تفصیل موجود ہے۔)
محترم جج صاحب! (جذبات میں آکرٹھیکیدار کی طرف اشارہ کرکے):
نہ جانے اِن جیسے کتنے ، بھولے بھالے ، ایمان دار ٹھیکیداروں سے، اِس آفیسر نے ظلماً وجبراً رشوت وصول کی ہوگی، اس کے باوجود ، وکیلِ دفاع قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ،اپنے مؤکل کو سزا سے بچانا چاہتا ہے، ان کا مؤکل چوںکہ اپنے جرم کا اقرار کرچکا ہے، لہٰذا عدالتِ عالیہ کو چاہیے کہ مجرم کو جلد از جلد رشوت خوری کے معاملے میںسزا دے۔
جـج(وکیل دفاع سے مخاطب ہوکر):
تمام ثبوتوں کی روشنی میں، اور وکیلِ استغاثہ کے بیان سے، یہ بات ثابت ہوچکی کہ آپ کا مؤکل، رشوت خوری/کرپشن کا مجرم ہے ، لہٰذا عدالتِ عالیہ، فرمانِ سرکارﷺ : ’’ اَلرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي کِلاَہُمَا فِيْ النَّارِ ‘‘ ۔ (المعجم الأوسط)
اور مقاصد شریعت کی دفعہ؍ ۴ ’’حفاظتِ مال‘‘ کے تحت،مجرم کو اُس کی ملازمت سے برطرف کرنے، اور جن جن افراد سے رشوت کی رقم لی، وہ اُنہیں لوٹانے کا حکم سناتی ہے۔ (عدالت برخاست ہوتی ہے !)
OoOoOoOoOoO