کوئی ایک دوسرے کی خیریت اور احوال دریافت کرتا ہے، جس پرہرکوئی اپنی خیریت اور احوال بیان کرتا ہے ، جسے گاؤں کے امام صاحب مولوی محمود بڑی غور سے سنتے ہیں، اور اس کے بعد اس پر اپنا دینی تبصِرہ فرماتے ہیں۔
تو لیجیے!… سماعت فرمائیے!
ظہور پٹیل (حقانی میاں سے): کیا بھئی حقانی میاں! خیریت سے ہیں؟
حقانی میاں: الحمد للہ! میں بہت ہی مزے میں ہوں، کاروبار بھی بڑے زوروں پر ہے، روزانہ ہزاروں کا ٹن آور ہورہا ہے، مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ بندے نے اپنے کاروبار کو ترقی دینے کے لیے، پچاس لاکھ روپئے سینٹرل بینک سے لون اٹھایا ہے، جس پر ہر ماہ سود بھرنا پڑتا ہے، لیکن آمدنی اتنی ہے کہ اس سود میں بھری جانے والی رقم بہت معمولی ہے۔ کچھ دنوں پہلے ایک نیا مکان تمام جدید سہولتوں سے آراستہ تعمیر کیا، بڑے دھوم سے گھر بھرنی کی، تمام دوست واحباب کو دعوت بھی دی تھی، تمام ہی احباب دعوت کھاکر ، مکان دیکھ کر بڑے خوش ہوئے، سب ہی نے میرے تاجرانہ ذہن اور عقل مندی کی داد دِی، اس سال میاں بیوی کے حج کا فارم بھی بھردیا ہے، دعا کرو نمبر نکل جائے، تاکہ بیت اللہ کی زیارت اور حضور ﷺکے در پر حاضری بھی نصیب ہوجائے۔
حقانی میاں(ظہور پٹیل سے): آپ اپنی بھی توکچھ سنائیے!
ظہور پٹیل: الحمد للہ! ویسے تو میں بھی مزے میں ہی ہوں، لیکن کچھ پریشانی تھی، اس سال کھیت میں کپاس، گنا وغیرہ لگانا تھا، جس کے لیے پانی کی