میں کوئی تغیر نہیں کرتےاور اگر لام مکرر ہوا تو ان میں ادغام کرتے ہیں، یہ کل عبارت کا خلاصہ ہوا ۔
قولہ : وشذّ أبي يَأْبَى ۔۔۔
ش:ابن حاجب رحمہ اللہ نے ذکر کیا تھا کہ ماضی مفتوح العین کے ساتھ مضارع مفتوح تب آئے گا جب عین یا لام کلمہ حروف حلقی سے ہوں اور ان میں الف نہ ہو ۔ اس قاعدہ پر تین سوال ہوتے تھے جن کے جواب یہاں سے شروع ہوتے ہیں ۔
سوال اول ۔أبی یأبی میں عین یا لام کلمہ کے مقابلہ میں حرف حلقی نہیں ہے اور الف بھی موجود ہے پھر بھی فعَل یفعَل کے وزن پر لایا گیا ہے ؟
جواب ۔یہ شاذ ہے ۔
سوال دوم۔قلیٰ یقلیٰ الف پائے جانے کے باوجود فعَل یفعَل کے وزن پر ہے؟
جواب :قبیلہ عامر کی لغت میں یہ یفعَل آیا ہے ورنہ عام اور مشہور بکسر العین یقلِی ہے ۔
سوال سوم ۔ رکَن یرکَن حروف حلقی کے نہ پائے جانے کے باوجود یفعَل کے وزن پر آیا ہے ؟
جواب ۔ یہ تداخل لغتین سے ہے اور وہ اس طرح کہ یہ دو اوزان سے آتا ہے فعَل یفعُل اور فعِل یفعَل تو یہاں ماضی اول وزن سے اور مضارع ثانی وزن سے لیا گیا تو یہ بن گیا۔
قولہ:۔ ولزموا الضَّمَ فِي الأجوف ۔۔۔
ش: عین کلمہ میں ضمہ اور کسرہ کبھی تو سماعی ہوتا ہے جیسے نصر ینصُر اور ضرب یضرِب اور کبھی قیاسی ہوتا ہے یہاں سے قیاسی کا ذکر شروع ہورہا ہے ابن حاجب نے قیاسی کےتقریباً چار قواعد بیان کیے ہیں ۔