دوسرا اختلافی قاعدہ:
قلب اس طرح بھی پہچانا جاتا ہے کہ اگر اس کلمہ قلب نہ مانا جائے تو علی تقدیر الصحة کلمہ کابغیر کسی علت کے غیر منصرف ہونا لازم آئے گا۔یہ سیبویہ کا مسلک ہے جیسے اشیاء کہ اس کا وزن لفعاء ہے کیونکہ یہ کلمہ غیر منصرف تھا اور منع صرف کا ظاہری طور پر کوئی سبب بھی موجود نہیں لھذا حکم لگایا گیا کہ یہ مقلوب ہے شیئَاء سے بروزن فعلاء پھر اس کے لام کلمہ کو جو ہمزہ اولی ہے فاء کلمہ کی جگہ پر رکھ دیا کیونکہ اگر لام کلمہ میں قلب نہ کرتے تو ہمزتین کا اجتماع لازم آتا ،رہا الف کا درمیان میں آنا تو وہ حاجز حصین نہیں ہے ۔ اور اصل کلمہ الف تانیث ممدودہ کے اوزان میں سے ہے ، اسی وجہ سے غیر منصرف ہے یہ تو سیبویہ کا مذہب ہے ۔لیکن امام کسائی یہ قلب نہیں مانتے ان کے نزدیک اشیاء بر وزن افعال ہے باقی رہا کلمہ کا بلا سبب کے غیر منصرف ہونا توا ن کےنزدیک اس کلمہ کا غیر منصرف ہوناشاذ ہے بہرحال اس مذہب پر یہ شئی کی جمع قلت ہے ۔اور امام فراء کہتے ہیں کہ یہ جمع کثرت ہے اور وزن اس کا افعاء ہے کیونکہ اصل اس کی افعلاء تھی یعنی اشیئاء ۔پھر پہلی ہمزہ کو اجتماع کی وجہ سے حذف کر دیا اور اس کا مفرد شیِّئ ہے بالتشدید ،پھر کثرت استعمال کی وجہ سے تخفیف کی گئی ۔
ملاحظہ:
قولہ علی الاصح ۔ اگر اس عبارت کو اداء کے متعلق کیا جائے تو معنی یہ بنے گا کہ اگر لفظ کو صحیح مانا جائے اور بغیر قلب مانے صحیح والا وزن کیا جائے تو بغیر علت کے منع صرف لازم آتا ہے ۔باقی رہی یہ بات کہ صحیح کا لفظ کیوں نہیں استعمال کیا تو یہ (یعنی اصح کا لفظ ) کسائی کہ مذہب کی طر ف اشارہ ہے۔جو فراء کے مذہب سے زیادہ صحیح ہے ۔