وفاعَل لنسبةِ أَصله إِلَى أحد الْأَمريْنِ مُتَعَلقًا بِالْآخرِ للمشاركة صَرِيحًا فَيَجِيء الْعَكْسُ ضمنًا نَحْو ضاربته وشاركته وَمن ثمَّ جَاءَ غيرُ الْمُتَعَدِّي مُتَعَدِّياً نَحْو كارمته وشاعرته والمتعدي إِلَى وَاحِد مُغَايرٍ للمفاعل مُتَعَدِّيا إِلَى اثْنَيْنِ نَحْو جاذبتُه الثَّوْبَ بِخِلَاف شاتمته وَبِمَعْنى فعَّل نَحْو ضاعفت وَبِمَعْنى فعَل نَحْو سَافَرت۔
خاصیات باب فاعل
فاعل باب کے تین خواص بیان ہوئے ہیں:
١۔ مشارکت :مطلب یہ ہے کہ مصدر کی نسبت دو امروں کی طرف ہو(بایں معنی کہ دونوں امر مصدر میں شریک ہوں)لیکن مصدر کی نسبت ایک کی طرح صراحتاً ہواور دوسرے کی طرف ضمناً ۔بالفاظ دیگر دو کا مل کر کام کرنا کہ ہر ایک فاعل بھی ہو اور مفعول بھی اگرچہ ظاہر ایک فاعل اور دوسرا مفعول ہو۔ جیسے ضاربتہ میں نے اسے مارا اور اس نے مجھے ۔اسی طرح شارکتہ ہم ایکدوسرے کے شرک بنے ۔اسی بنا پر اگر فعل ثلاثی جس سے فاعل بنایا جائے غیر متعدی ہوتو فاعل بننے پر وہ متعدی ہو جائے گا جیسے کرم سے کارمنتہ اور اگر متعدی بیک مفعول ہوا تو ااس صورت میں متعدی بدو مفعول ہو جائے گا ۔ جیسے جاذبتہ الثوب۔ متعدی بیک مفعول کے بارے میں مصنف فرماتے ہیں کہ اگر اصل فعل ایک مفعول کی طرف متعدی تھا اور وہ مفعول فاعل کے ساتھ مفاعلت میں شریک نہیں ہوسکتا جیسے جذبت الثوب تو ایسی صورت میں جب اس کو فاعل باب پر لے جائیں گے تو یہ متعدی بدو مفعول آئے گا تاکہ معنی درست رہے لیکن اگر یہ مفعول فاعل کے ساتھ شریک ہوسکتا ہے جیسے شاتمت زیدا کہ زید بھی شتم