١۔ اسم میں کبھی تصغیر سے پہلے سبب قلب یا سبب حذف پایا جاتا ہے جسکی وجہ سے کلمہ میں لفظ بدل جاتا ہے یا حذف ہو جاتا ہے اور کبھی تصغیر سے پہلے یہ سبب نہیں پایا جاتا ۔
٢۔ پھر اگر قبل التصغیر سبب قلب یا حذف پایا جائے تو کبھی تو تصغیر کی وجہ سے یہ سبب زائل ہوجاتا ہے اور کبھی نہیں ۔
٣۔جہاں تصغیر کی وجہ سے سبب قلب زائل ہوجاتا ہے وہاں بعض صورتیں تو اتفاقی ہیں کہ تصغیر میں سبب قلب کے زائل ہونے سے مسبب منتفی ہے اور بعض صورتیں اختلافی ہیں۔
٤۔ بعض صورتیں ایسی بھی ہیں جہاں تصغیر سے تو سبب حذف زائل نہیں ہوتا لیکن تصغیر میں کوئی ایسی چیز عارض آجاتی ہے جو اس سبب کا اعتبار کرنے سے مانع ہوتی ہے مثلا کلمہ ثلاثی ہو اور کوئی حرف بھی محذوف ہو( خواہ خلاف القیاس تخفیف کی غرض سے حذف ہو یا قیاسی تعلیل کیوجہ سے ہو )کیونکہ یہاں محذوف کے بغیر وزن پورا نہیں ہوتا ۔
٥۔ قبل التصغیر تو سبب قلب یاسبب حذف نہ پایا جائے مگر تصغیر کیوجہ سے سے سبب قلب یا سبب حذف عارض آجائے ۔
٦۔التصغیر یَردّ الاشیاءَ الی اصلها ۔
ان اصولی باتوں کے بعد اب ہم احکامات ومسائل ذکر کرتے ہیں ۔
مسئلہ نمبر١:
ان میں سے ہے جہاں قلب ہوا ہے لیکن تصغیر کے سبب اور مقتضی کے زائل ہونے سے زائل ہوجاتا ہے جیسے باب اور ناب ۔ اس مثال سے مراد ہر وہ واؤ اور یاء ہیں جو الف سے بدل گئے