ہووہاں بھی یہی قاعدہ چلے گا۔)۔جیسے ابن اور اسم یہ اصل میں سمو اور بِنو تھے واؤ کو حذف کرکے شروع میں ہمزہ وصلی دے دی پھر فاء کلمہ کو ساکن کر دیا تو اسم اور ابن ہوگئے اب اگر فاء کلمہ کو ساکن ہی رہنے دیں تو فُعَیل بنا ء نہیں بن سکتی اور اگرفاء کلمہ کو فتح دے دیں تو ہمزہ وصلی مابعد متحرک ہونے کی بناء پر گر جائے گی تو دو حرف باقی رہنے کیوجہ سے پھر فُعیل وزن نہ بن سکے گا لہذا ہمزہ کو ساقط کیا جائے ،اور محذوف کو واپس لائے جائے گا پھر تصغیر بنائی جائے گی تاکہ سمیّ اور بنیّ تصغیر حاصل ہوجائے۔
اسی طرح أخت اور بنت کہ اصل میں أخو اور بنو تھے واؤ کو حذف کر کے تاء عوض میں لے آئے تو أخت اور بنت ہوگیا ۔اب اصل بناء میں یہ ہے کہ کلمہ دوسرے کلمہ کے ساتھ ملا ہوا ہو اسی بناء پر جو تاء کسی کے عوض میں آئے اس کے ماقبل فتح دی جاتی ہے تاکہ وہ تاء جو حقیقة اس کلمہ کی نہیں تھی اس کا کلمہ کے ساتھ ربط ہوجائے لیکن أخت اور بنت میں جب تاء عوض میں لائی گئی تو ماقبل ساکن تھا اب اگر محذوف حرف کو واپس نہ لایا جائے اور فعیل وزن پر تصغیر لائے جائے تو تاء کا حقیقی کلمہ سے ہونا لازم آتا ہے اس بناء پر محذوف حرف کو واپس لایا گیا اور أخُیّة اور وبُنَیَّہ تصغیر لائی گئی تدبر۔
قولہ :بخلاف باب میت وهار وناس۔
مسئلہ نمبر ٥:
یہ دوسرے قاعدے سے متعلق ہے جہاں تصغیر کیوجہ سے سببِ حذف زائل نہیں ہوتا ۔اور باب سے اشارہ اس قاعدہ کی طرف ہے کہ جہاں بھی لفظ سے کچھ حذف کردیا گیا ہولیکن یاء ِتصغیر کے بڑھانے سے فعیل وزن پورا ہوجاتا ہو تو وہاں سبب حذف کے زائل نہ ہونے کی