ہوں تو تصغیر میں اپنی اصلی حالت پر واپس آجائیں گے اسی طرح میزان اور موقظ بھی اسی مسئلے ہیں ان سب کی تصغیر بُوَیب ،نُیَیب ،مُوَیزین اور مُیَقیظ آئے گی۔
قولہ۔بخلاف قائم ۔۔
مسئلہ نمبر٢:
تیسرے اصول کی اختلافی صورت میں سے ہے کہ آیا تصغیر کیوجہ سے سبب قلب زائل ہوگا یا نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حرف اصلی حالت کی طرف لوٹے گا یا نہیں جیسے قائم کہ اس کی تصغیر میں سیبویہ اور جرمی کا اختلاف ہےسیبویہ کے نزدیک اس کی ہمزہ اصلی حالت کی طرف نہیں لوٹے گی لھذا قائم کی تصغیر قُویئم آئے گی لیکن جرمی کے نزدیک ہمزہ اصلی حالت کی طرف لوٹے گی جو کہ واؤ ہے پس اس صورت میں قائم کی تصغیر قویِّم آئے گی۔
غالباً مصنف کے نزدیک اس مسئلہ کا تعلق دوسرے اصول سے ہے کیونکہ مصنف نے تراث اور أُدَدِ کو دوسرے مسئلہ ہی کے تحت ذکر کیا ہے(کیونکہ تینوں میں سبب قلب بعدالتصغیر بھی باقی ہے قائم میں واؤ کا عین کلمہ میں، اسم فاعل میں واقع ہونا ،تراث جو اصل میں وراث تھا اس میں واؤ پر ضمہ کا واقع ہونا اور أُدَد جو اصل میں وُدد تھا واؤ کا ضمہ لازمی کے ساتھ مضموم ہونا ،اور غیر مشدد ہونا)اگرچہ یہ دونوں دوسرے اصول سے ہیں جہاں سبب قلب تصغیر کیوجہ سے زائل نہیں ہوتا ۔
قولہ ۔وقالوا عییدد لقولهم أعیاد۔
ش: یہاں سے ایک اعتراض کا جواب دیا جارہا ہے جو مصنف کی عبارت" لذھاب المقتضی" پر ہوتا ہے اعتراض یہ ہے کہ لفظ عِید کی اصل عِود ہے ماقبل کسرہ اور واؤ کے سکون کے سبب واؤ