پہلا قاعدہ:
قلب اصلِ معلوم سے پہچانا جاتا ہے یعنی مشتق منہ سے جیسے ناءَ یناءُ کہ ان میں قلب پہچانا گیا ہے اصل یعنی مصدرسے جو کہ الناْی ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور مصدر اس باب کے لیے نہیں پایا جاتا ۔معلوم ہوا کہ یہ ناء یناء ان سے مقلوب ہے جو مصدر کی ترتیب پر تھے یعنی نأٰی ینأٰی سے پھر لام کلمہ کو مقدم کر کے بمطابق قانون الف سے بدل دیا تو ناء یناء ہو گیا بروزن فلَع یفلَع۔
دوسرا قاعدہ:
قلب امثلہء اشتقاق سے بھی پہچانا جاتا ہے پھر امثلہ ءاشتقاق سے کیا مراد ہے رضی نے لکھا ہے کہ اس سے ''وہ کلمات مراد ہیں جو اسی اصل سے مشتق ہوں جس سے مقلوب مشتق ہے ''اور کمال کی تصریحات یہ ہیں کہ '' امثلہ ء اشتقاق سے ایسے کلمات مراد ہیں جو موزون کے مادہ سے وارد ہوں (چاہے مجرد سے ہوں یا مزید سے )اور ایسے معنی میں وارد ہوں جن کا تعلق موزون کے معنی کے ساتھ ہوتو جب باقی تصاریف اس لفظ کی تصاریف کے خلاف ہوں گی تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ لفظ اسی اصل سے مقلوب ہے جو باقی تصاریف کی ترتیب پر تھا اور خاص مادہ کی طرف لوٹنے میں باقی تصاریف کے ساتھ شریک تھا ''۔مصنف نے رحمہ اللہ نے اس قاعدہ پر تین مثالیں دی ہیں :