فائدہ:
رضی نے لکھا ہے کہ امثلہ اشتقاق والے قاعدے کو پہلے قاعدے سے الگ شمار کرنا مصنف کا عجیب کام ہے کیونکہ کلمات مشتقہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل کلمہ کی فلاں ہی ہے لھذا یہ پہلے قاعدے ہی کہ متعلق ہے نہ کہ کوئی مستقل قاعدہ لیکن کمال نے یہ توجیہ کی ہے کہ امثلہ اشتقاق کو پہچاننے سے ذہن اصل اور قلب دونوں کی طرف ایک ساتھ منتقل ہو گا برخلاف اصل کی معرفت کے ؛کیونکہ اصل کی معرفت سے قلب اس اصل سے پہچانا جائے گا جو پہلے سے معلوم تھی خلاصہ یہ نکلا کہ پہلے قاعدے میں اصل پہلے سے معلوم تھی بر خلاف دوسرے قاعدے کہ کہ اس میں امثلہ سے اصل معلوم ہوئی فلذلک جعلھما وجہین۔
تیسرا قاعدہ :
کلمہ میں وجہ تعلیل کے موجود ہونے کے باوجود تعلیل کا نہ ہونا ۔ یعنی کلمہ کا صحیح ہونا اس سے بھی قلب پہچانا جاتا ہے جیسے أیِس ۔ اس کلمہ میں قال والا قانون لگنا چاہیے تھا اور اسے الف سے بدل کر آسَ پڑھنا چاہیے تھاکیونکہ یاء متحرک ماقبل مفتوح ہے مگر قانون نہیں لگایا گیا یہ دلیل ہے کہ کلمہ مقلوب ہے پھر حرفاً و معناً "یئِس" اس کے موافق پایا جارہا تھا معلوم ہوا کہا أیِس یئِسَ سے مقلوب ہے اور تعلیل اس لیے نہیں کی کہ اصل میں تعلیل کا سبب موجود نہیں أیِسَ بر وزن عفِلَ