نَحْو جَاءَ أَو إِلَى منعِ الصّرْف بِغَيْر عِلّةٍ على الْأَصَحِّ نَحْو أَشْيَاءَ فَإِنَّهَا لفعاءُ وَقَالَ الْكسَائيُّ أَفعَالٌ وَقَالَ الْفراء أفعاءُ وَأَصلهَا أفعلاءُ وَكَذَلِكَ الْحَذفُ كَقَوْلِك فِي قَاضٍ فاعٍ إِلَّا أَن يُّبيَّن فيهمَا۔
قلب اور علامات قلب کا بیان
اصل بحث تو وزن کی چل رہی تھی لیکن جب مصنف نے قلب کا ذکر کیا تو اب ضمناً علامات قلب کو بھی ذکر کر دیا۔ یہاں سے قلب کو پہچاننے کی علامات کا بیان شروع ہو رہا ہے۔مصنف نے قلب کو پہچاننے کی چھ علامات ذکر کی ہیں ،فرماتے ہیں قلب پہچانا جاتا ہے :
١۔:اصل سے۔
٢۔:امثلہء اشتقاق سے۔
٣۔:ضرورت تعلیل کے باوجود تعلیل نہ ہونے سے۔
٤۔:قلت استعمال سے ۔
٥۔:اگر اس میں قلب نہ کیا جائے تو دو ہمزوں کے جمع کے لازم آنے سے۔
٦۔:اگر اس میں قلب نہ مانا جائے تو بغیر سبب کے منع صرف لازم آنے سے۔
ان میں سے پہلے چار قاعدے اتفاقی ہیں اور آخری دو اختلافی،جن میں سے پانچواں قاعدہ امام خلیل کا مذہب ہے اور چھٹا قاعدہ سیبویہ کا۔
اس اجمال کے بعد اب ہم تفصیل نقل کرتے ہیں: