ش:یعنی یہ حکم منصوب منون کے لیے ہے مرفوع منون اور مجرور منون کے لیے نہیں ۔ لھذا مرفوع منون کو حالت وقف میں واؤ اور مجرور منون کو یاء سے نہیں بدلیں گے جیسے جاء زید کو جاء زیدو اور مررت بزید کو مررت بزیدی نہیں پڑھیں گے ۔مصنف نے علی الافصح کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مرفوع منون اور مجرور منون کو حالت وقف میں واؤ اور یاء سے بدلنا جائز تو ہے مگر غیر فصیح ہے ۔
قولہ ۔ ویوقف علی الالف فی باب عصا ورحی بالاتفاق۔
ش: با ب عصا سے مصنف ایک قاعدہ بیان کرتے ہیں کہ ہر کلمہ جس کا آخری حرف الف مقصورہ ہو اور اس کلمہ کے آخر میں تنوین بھی ہوتو جب اس کلمہ پر وقف کریں گے تو الف پر وقف کریں گے ۔ بالاتفاق
جیسے عصا کو حالت وقف میں عصا پڑھیں گے اور رحی ً کو رحیٰ۔پھر اس پر تو اتفاق ہے کہ وقف الف پر کیا جائے گا مگر یہ الف کونسا ہے ؟اس میں اختلاف ہے سیبویہ اور سیرافی کے نزدیک یہ لام کلمہ ہے جو تنوین کے حذف کرنے کے ساتھ واپس لوٹ آیا ہے جبکہ ابن برھان کے نزدیک یہ تنوین ہے ۔
فائدہ ۔ پہلے مذہب کے مطابق یہ تینوں احوال (رفع ،نصب ،جر)میں لام کلمہ ہے اور ابن برھان کے نزدیک تینوں احوال میں تنوین ہے کیونکہ اس سے پہلے فتحہ ہے اس لیے جب بھی وقف ہو گا یہ الف سے بدل جائے گی ۔
فائدہ ۔کیونکہ اس الف کی اصلیت میں اختلاف تھا کہ آیا یہ الف تنوین ہے یانہیں اسی لیے مصنف نے اسے بطور محل کے ذکر کیا ہے ۔