ش:وقف کا دوسرا حکم روم ہے اس کا محل بھی متحرک ہے آگے روم کی تعریف بیان کرتے ہیں یعنی" حالت وقف میں معمولی سی حرکت کا تلفظ کرنا "۔مصنف فرماتے ہیں کہ مفتوح میں روم کا پایا جانا قلیل ہے ۔
متن
والإشمام فِي المضموم وَهُوَ أَن تَضُمَّ الشفتين بعد الإسكان وَالْأَكْثَر على أَن لَا روم وَلَا إشمام فِي هَاء التَّأْنِيث وَمِيم الْجمع وَالْحَرَكَة الْعَارِضَة۔
حکم سوم
وقف کا تیسرا حکم اشمام ہے اس کا محل مضموم ہے یعنی اشمام صرف مضموم کلمہ پر وقف کرنے کی صورت میں ہوگا ۔آگے اشمام کی تعریف بیان کرتے ہیں ۔وھو أن تضم ۔۔یعنی کلمہ کو ساکن کرنے کے بعد دونوں ہونٹوں کو گول کرکے آپس میں ملا لینے کو اشمام کہتے ہیں ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ہونٹوں سے واؤ کی شکل بنالی جائے لیکن واؤ ادا نہ کیا جائے ۔
قولہ ۔ والاکثر علی أن لاروم ۔۔۔والحرکة العارضة
ش: اکثر صرفیوں کے نزدیک ھاء تانیث ،میم جمع ،اور عارضی حرکت میں روم اور اشمام منع ہے ھاء تانیث کی مثال جیسے رحمة ۔میم جمع کی مثال جیسے الیکم ۔ اور عارضی حرکت کی مثال جیسے قل ادعو اللہ۔
اکثر کا لفظ اس با ت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بعض کے نزدیک ان اقسام میں بھی روم اور اشمام جائز ہے رضی نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے ۔لم أر أحدا ،لا من القراء ولامن النحاة ذکر أنہ یجوز الروم والاشمام فی أحد الثلاثة المذکورة بل کلھم منعوھما فیھا مطلقا ۔لیکن رضی