٢۔ ہمزہ وصلی کی تین حالتیں ہیں :
١۔ مفتوح :یہ دو جگہ پر آتی ہے ۔ لام تعریف میں ۔اور أیمن اللہ میں۔
٢۔ مضموم:جبکہ ساکن کے مابعد حرف مضموم ہو جیسے أقتل ۔
٣۔ مکسور :پہلے دو مقامات کے علاوہ ہر جگہ۔
٣۔ وصلاً۔ یعنی درج کلام میں ہمزہ وصلی گر جاتی ہے عام حالات میں باقی رکھنا غلطی ہے ہاں ضرورت شعری میں باقی رکھی جاتی ہے مگر شاذ ہے ۔
٤۔ اگر ہمزہ وصلی مفتوح پر ہمزہ استفہام داخل ہوجائے تو بین بین پڑھنا نا جائز ہے فصیح یہ ہے کہ ہمزہ وصلی کو الف سے بدلنا لازم ہے جیسے أٰالحسن ۔تاکہ دونوں ہمزہ کے درمیان التباس نہ لازم آئے ۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جہاں پہلا کلمہ ساکن لازم ہو وہاں شروع میں ہمزہ لائی جاتی ہے اور جہاں سکون عارض آجائے وہاں ہمزہ نہیں لائی جاتی ۔پس فھْو وغیرہ ضمائر کی ابتداء میں جو سکون آرہا ہے وہ طار ی اور عارضی ہے اسی وجہ سے شروع میں ہمزہ نہیں لائی گئی ۔(عارضی اس وجہ سے ہے کہ یہاں فاء عاطفہ اور ھو کے درمیان جوازی صورت بنائی گئی ہے )نیز اس طرح پڑھنا فصیح بھی ہے جیسے وھوخیر لکم کی ایک قراء ت سکون ِہ کے ساتھ بھی آئی ہے اسی طرح جو جوازی صورت لام ِامر اور واؤ یا فاء یا ثم عاطفہ کے درمیان بنائی جاتی ہے وہ بھی عارض ہے اسی وجہ سے ہمزہ نہیں دی گئی جیسے ولیوفوا ، فلینظر اور ثم الیقضوا۔
یہ کل باب ابتداء کا خلاصہ ہو گیا نیز کل باب کی تشریح بھی ہو گئی ہے لھذا دوبارہ تشریح کی ضرورت نہیں رہی اب چند عبارات کی وضاحت اور کچھ فوائد لکھے جاتے ہیں ۔