تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
حکیم الامت تھانوی، قیامت کے دن آپ تہجد گزاروں میں اٹھائے جائیں گے، لیکن جو لوگ آدھی رات کے بعد اُٹھ کر پڑھتے ہیں وہ قابل مبارک باد ہیں وہ اسی وقت پڑھیں۔ اس کے یہ معنیٰ نہیں کہ سستا سودا پا کر مہنگا والا چھوڑ دو۔دو قسم کی مٹھائی ہے ایک دس روپے کلو ہے اور دوسری پچاس روپے کلو ہے جو بہت مزیدار ہے۔اﷲ تعالیٰ نے جس کو ہمت و توفیق دی ہے وہ مہنگی والی کھائے۔ میں تو ان کے لیے کہتا ہوں جو کم ہمّت ہیں یا صحت کمزور ہے کیوں کہ اکثر لوگوں کی صحت آج کل اس قابل نہیں ہے کہ آدھی رات کو اُٹھ سکیں لہٰذا وہ وتر سے پہلے دو نفل پڑھ کر تہجد کی نعمت حاصل کر لیں تاکہ قیامت کے دن ناقص نہ اُٹھیں کیوں کہ محدثین فرماتے ہیں کہ جو قیامِ لیل نہیں کرے گا ہمیشہ ناقص رہے گا، ملّا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ کی عبارت یہ ہے: لَیْسَ مِنَ الْکَامِلِیْنَ مَنْ لَّایَقُوْمُ اللَّیْلَ 23؎میری تمنّا ہے کہ ہمارا ایک دوست بھی ناقص نہ رہے۔ سونے سے پہلے چند رکعات پڑھ کر کاملین میں اٹھائے جائیں ۔ علامہ شامی روایت نقل فرماتے ہیں: وَمَا کَانَ بَعْدَ صَلَوٰۃِ الْعِشَاءِ فَہُوَ مِنَ اللَّیْلِ لہٰذا علامہ شامی ابنِ عابدین کا فقہی فیصلہ ہے کہ فَاِنَّ سُنَّۃَ التَّہَجُّدِ تَحْصُلُ بِالتَّنَفُّلِ بَعْدَ صَلَوٰۃِ الْعِشَاءِ قَبْلَ النَّوْمِ 24؎یہ علامہ شامی کی عبارت نقل کر رہا ہوں جس سے ساری دنیا کے مفتی فتویٰ دیتے ہیں کہ اس شخص کی سنت ِتہجد ادا ہوجائے گی جو بعد نمازِ عشاء وتر سے پہلے چند نفلیں پڑھ لے گا۔ وتر کے بعد بھی پڑھ سکتا ہے لیکن سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر وتر کو آخر میں پڑھتے تھے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ سنت کے مطابق نفل وتر سے پہلے پڑھ لیں لیکن اگر کبھی بعد میں بھی پڑھ لیں تو جائز ہے، افضل یہی ہے کہ وتر سے پہلے پڑھے اور بعد میں پڑھ لے تو جائز وہ بھی ہے۔ _____________________________________________ 23؎مرقاۃالمفاتیح: 148/3،باب التحریض علٰی قیام اللیل،المکتبۃ الامدادیۃ، ملتان 24؎رد المحتار:مطلب فی صلوٰۃ اللیل: 467/2، مطبوعۃ، ریاض