تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
جنت کی حوریں بھی نہ کھینچ سکیں گی، جنت میں جس دن اﷲ تعالیٰ کا دیدار ہوگا تو بوقت دیدارِ الٰہی کوئی حور بھی یاد نہیں آئے گی۔ارے کہاں خالق اور کہاں مخلوق ؎چراغ مردہ کجا شمع آفتاب کجا کہاں آفتاب اور کہاں مردہ چراغ۔مخلوق کی کیا حقیقت ہے۔ مولانا اصغر گونڈوی رحمۃ اللہ علیہ استادِ جگر نے جذب کی ایک اور علامت بیان کی ہے ؎اب نہ کہیں نگاہ ہے اب نہ کوئی نگاہ میں غور سے سنو دوستو! اختر درد بھرے دل سے پیش کر رہا ہے ، پندرہ سال شاہ عبد الغنی صاحب کی غلامی کا نچوڑ پیش کر رہا ہوں۔یوں ہی مفت میں نہیں پائی ہے، اﷲ تعالیٰ کی عطا ہے۔ فرماتے ہیں ؎اب نہ کہیں نگاہ ہے اب نہ کوئی نگاہ میں محو کھڑا ہوا ہوں میں حُسن کی بار گاہ میں ایک علامت یہ پیدا ہوتی ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی یاد میں مست رہتا ہے۔ مخلوق کی بھیک نہیں دیکھتا ، بھیک دینے والے کو دیکھتا ہے۔ لیلیٰ کو نہیں دیکھتا لیلیٰ کو نمک دینے والے کو دیکھتا ہے، دولت کو نہیں دیکھتا جس نے مال داروں کو مال دیا ہے اس مالک کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ غرض ساری کائنات سے وہ مستغنی ہوجاتا ہے۔ وہ حُسن کا عالم ہو کہ مال کا عالم کسی کو اپنے دل میں نہیں آنے دیتا۔ جس دل میں اﷲ آتا ہے اور اس کو جذب نصیب ہوتا ہے تو کیا علامت ظاہر ہوتی ہے؟ سنیے! خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎یہ کون آیا کہ دھیمی پڑ گئی لو شمع محفل کی پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی ساری کائنات اس کی نگاہوں سے گر جاتی ہے۔ چاند سورج جیسی شکلوں کو نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتا ۔حسینوں سے نظر بچانے کی اس کو توفیق ہوجاتی ہے۔یہ خاص علامت ہے جذب کی۔اور کیا ہوتا ہے؟ خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎