تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
ڈبیا، کوئی چیز جائز نہیں ۔ سونے کا استعمال مَردوں کہ لیے حرام ہے ، چاندی بھی مَردوں کے لیے حرام ہے سوائے ساڑھے چار ماشہ سے کم کی انگوٹھی کے ، چاندی کی انگوٹھی اگر ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو تو جائز ہے۔ ایک مچھلی نے غوطہ لگایااور لوہے کی سوئی لے کر حاضر ہوگئی۔ بس وزیر رونے لگا کہ میں نے تو آپ کو بے وقوف ملّا سمجھا تھا لیکن میری محرومی کہ میں آپ جیسے ولی اﷲ کو نہیں پہچان سکا اور مچھلیاں جانور ہو کر آپ کو پہچان گئیں، جانوروں نے آپ کو پہچان لیا اور میں انسان ہوکر آپ کو نہیں پہچان سکا۔ ہائے میں کتنا محروم، کتنا کمینہ و نالائق ہوں کہ آپ جیسے ولی اﷲ کی شان میں گستاخی کر رہا تھا ، بے وقوف سمجھ رہا تھا مگر معلوم ہوا کہ آپ تو پہلے خشکی کے بادشاہ تھے اب خشکی اور تری دونوں کے بادشاہ ہیں۔ آپ شاہِ بحر بھی ہیں اور شاہِ بر بھی ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ یہ نسبت مع اﷲ کی دولت مجھ کو بھی دے دیجیے۔ فرمایا اچھا چھ مہینے رہ جاؤ۔ چھ مہینے وزیر ان کی خدمت میں رہ گیا اور ولی اﷲ بن کر واپس ہوا ؎آناں کہ خاک را بہ نظر کیمیا کنند جن کی نگاہوں میں اﷲ تعالیٰ نے مٹی کو سونا بنانے کی صلاحیت دی ہے ؎آیا بود کہ گوشۂ چشمے بما کنند کیا یہ ہوسکتا ہے کہ مجھ پر بھی ایک نگاہ ڈال دیں جس سے میری مٹی بھی سونا بن جائے یعنی تعلق مع اﷲ سے قیمتی ہوجائے ۔ یہ شعر حافظ شیرازی نے سلطان نجم الدین کبریٰ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ ان کا قصہ بھی بہت عبرت آموز ہے۔ ایک شخص کے سات لڑکے تھے جس میں حافظ شیرازی بھی تھے لیکن حافظ شیرازی جنگل میں ا ﷲ کی یاد میں رویا کرتے تھے ، خدا کی تلاش میں بے چین تھے۔ سلطان نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں اﷲ تعالیٰ نے بتایا کہ اے سلطان نجم الدین! جاؤ ایک بندہ میری یاد میں جنگل میں رو رہا ہے۔ تم اس کی رہنمائی کرو۔کبھی مرید کے اخلاص کے صدقہ میں پیرکو اس کے پاس بھیجا جاتا ہے۔یہ اﷲ تعالیٰ کا جذب اور حق تعالیٰ کی رحمت ہے۔ فوراً ان کے باپ کے گھر پہنچے اور پوچھا کہ آپ کے کتنے لڑکے ہیں۔ کہا کہ چھ ہیں۔ فرمایا کہ بلاؤ،لیکن ان کو دیکھ کر فرمایا کہ بھائی تمہارے