کی راہ میں حائل تمام موانع اور رکاوٹوں کا حل تجویز کیا اور آخر تک اپنی دعوتی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مصروفِ عمل رہے اور ان کا طائر بلند پرواز بیماری، بڑھاپے اور کمزوری کی پرواہ کئے بغیر ہمیشہ اڑتا رہا اور بلند ہمت رہا۔
ومن تکن العلیاء ہمّۃ نفسہ
v
فکل الذی یلقاہ فیہا محبب
ترجمہ: جس کا مطمح نظر بلندیوں اور رفعتوں کو پہنچتا ہو اسے اس راہ کی ساری زحمتیں اور پریشانیاں عزیز اور محبوب ہوتی ہیں ۔
(۵) تصنیف وتالیف کے راستہ سے حضرت مولانا کی دعوتی سرگرمیاں ’’عیاں راچہ بیاں ‘‘ کا مصداق ہیں ، مولانا کی سیکڑوں تصنیفات اور مضامین ومقالات ہیں جو اپنے موضوعات کی اہمیت ونزاکت اور موجودہ اہم مسائل کے تجزیہ وحل کے لحاظ سے منفرد شان رکھتے ہیں ، ان تصانیف کے ذریعہ جو فکری اور روحانی خلا پر ہوا ہے وہ محتاجِ بیان نہیں ہے، واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی تالیفات دعوتِ اسلامی اور ثقافت اسلامی کے میدان میں بنیادی مراجع ومصادر کی حیثیت رکھتی ہیں ، اور ان میں ایک مؤرخ کی جامع عقلیت، ایک عالم کی دقت نظر اور تحقیق، ایک ادیب کی بلاغت وادبیت اور ایک مخلص داعی کا جذبہ وحرارت سب کچھ جمع معلوم ہوتا ہے۔
(۶) صحافت بھی مولانا کی دعوتی کوششوں کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے، ۱۹۳۲ء میں ندوۃ العلماء کے عربی پرچہ ’’الضیاء‘‘ اور ۱۹۴۰ء میں اُردو منجلہ ’’الندوہ‘‘ کی ادارت میں مولانا شریک رہے، ۱۹۴۸ء میں انجمن تعلیمات اسلام کی طرف سے ایک پرچہ ’’تعمیر‘‘ نکالنا شروع کیا، ۱۹۶۳ء میں ندائے ملت نکلنا شروع ہوا تو اس کی سرپرستی اور نگرانی فرمائی، ندوۃ العلماء سے ۱۹۵۵ء میں ’’البعث الاسلامی‘‘ ۱۹۵۹ء میں ’’الرائد‘‘ اور ۱۹۶۳ء میں ’’تعمیر حیات‘‘ جاری ہوا تو مولانا تاحیات ان کے ذمہ دار وسرپرست رہے، ہند وبیرونِ ہند کا غالباً ایسا اسلامی مجلہ اور اخبار نہیں ہے جس میں مولانا کے چشم کشا مضامین ومقالات، تأثرات، انٹرویوز، افکار اور آراء طبع نہ ہوئی ہوں ۔