’’مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی موفق من اللہ ہیں ‘‘۔
(مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ)
’’مولانا ابوالحسن علی مجموعۂ حسنات ہیں ‘‘۔
(شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ)
’’مولانا آیۃ من آیات اللہ ہیں ‘‘۔
(علامہ یوسف بنوریؒ)
’’مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی تحریروں کے ذریعہ نہ صرف مسلمانوں ؛ بلکہ پوری انسانیت کے مربی ومحسن بن گئے ہیں ‘‘۔
(ڈاکٹر عبدالمنعم احمد یونس عمید کلیۃ اللغۃ العربیۃ ازہر)
’’آپ کا قلم شہد خالص کی طرح شفا کا کام دیتا ہے اور زخم کا مرہم ثابت ہوکر دین کی لگن پیدا کردیتا ہے‘‘۔
(شیخ عبدالفتاح ابو غدہ مرحوم)
’’کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مولانا اس وقت برصغیر پاک وہند میں نہیں ؛ بلکہ پوری دنیائے اسلام میں کئی پہلوؤں سے اپنا ثانی نہیں رکھتے، وہ تحریر وانشاء اور علم وادب ہی کے میدان کے شہسوار نہیں ، عمل وتقویٰ میں بھی سلف صالحین کا نمونہ ہیں ‘‘۔
(مولانا کوثر نیازی سابق وزیر مذہبی امور پاکستان)
’’مولانا علی میاں کا خمیر محبت ونرمی سے عبارت ہے، علم وتقویٰ نے ان سے فروغ پایا ہے، اور جامعیت علوم کی مسند ان سے مزین ہے، مشرق ومغرب کے دینی تقاضوں اور جدید طبقہ کے نبض آشنا ہیں ، ان کی تحریر دلوں کے اندر اترجاتی ہے، اور بیک وقت دل ودماغ دونوں کی تسلی کا سامان مہیا کردیتی ہے‘‘۔
(مولانا محمد اشرف سلیمانیؒ سابق صدر شعبۂ عربی اسلامیہ کالج پشاور)
’’میرے نزدیک اس کتاب ’’ماذا خسر العالم‘‘ کا مطالعہ ہر اس شخص کے لئے ضروری ہے جو اس وقت کسی بھی ناحیہ سے اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں ہے‘‘۔
(ڈاکٹر محمد یوسف موسیٰ، مصر)
’’مولانا نے اس کتاب (تاریخ دعوت وعزیمت) میں تاریخ کے خاکستر میں دبے