کا رخ موڑدے اور ساری انسانیت اس کے عمل اور ارادہ کے تابع ہوجائے؛ اس لئے کہ وہ اپنے پاس اس دکھی انسانیت کے لئے ایک زندہ پیام رکھتا ہے جو اس کے تمام دکھوں کا مداوا ہے، اس کے پاس ایمان ویقین کی جیتی جاگتی طاقت ہے، اس عالم کی رہنمائی کا وہی ذمہ دار ہے، دنیا کی امامت وقیادت اسی کو زیب دیتی ہے، اس عالم میں وہ صاحب امر ونہی کی حیثیت رکھتا ہے، اگر زمانہ اسے قبول نہ کرے، سماج اس کا مخالف ہو اور سیدھی راہوں سے ہٹا ہوا ہو تو پھر اس کے لئے کسی طرح یہ صحیح نہیں ہے کہ وہ زمانہ کے آگے ہتھیار ڈال دے اور اپنے آپ کو غلط سماج کے سپرد کردے؛ بلکہ اس پر ضروری ہے کہ زمانہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرے اور معاشرہ اور سماج سے جنگ کرے، یہاں تک کہ کامیابی وکامرانی اس کے قدموں میں آلگے، اقبال کے نزدیک ’’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ کا نظریۂ زندگی ایک مردِ مؤمن کے لئے کسی طرح صحیح نہیں ، وہ کہتا ہے:
حدیث کم نظراں ہے تو با زمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد تو با زمانہ ستیز
(نقوشِ اقبال ۱۲۲)
اقبال کو اس بات پر یقین تھا کہ ایک مسلم ربانی کا کوئی محدود وطن نہیں ہے؛ بلکہ سارا عالم اس کا ملک ووطن ہے، اس میں مشرق ومغرب کی کوئی تقسیم نہیں :
درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر اس کا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند
(نقوشِ اقبال ۱۲۶)
ایک بندۂ مؤمن اور انسانِ کامل کے لئے علامہ اقبال کے یہ جذبات ہیں ، ہم یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہوں گے کہ اگر اقبال زندہ ہوتے تو یقینا انہیں مولانا کی شخصیت وکردار میں وہ بندۂ مؤمن مل جاتا جس کی انہیں تڑپ اور جستجو تھی، بلاشبہ مولانا اقبال کے ’’بندۂ