اقبال کہتا ہے:
نقطۂ پرکار حق مرد خدا کا یقین
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
(نقوشِ اقبال ۱۱۸-۱۱۹)
اقبال کا مردِ مؤمن زندۂ جاوید ہے، اس لئے کہ وہ اپنے پاس ایک زندۂ جاوید پیام رکھتا ہے، اس کے سینے میں ایک زندۂ جاوید امانت ہے، اور اس کی زندگی ایک زندۂ جاوید مقصد کے لئے گذرتی ہے۔
مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل
(نقوشِ اقبال ۱۲۰-۱۲۱)
اقبال کی نگاہِ بلند ابھی یہاں پر رکتی نہیں ؛ بلکہ اس کی نگاہ کہیں اور پہنچتی ہے، وہ کہتا ہے کہ اس وسیع کائنات کا مقصد وجود ہی صرف مردِ مؤمن ہے، عالم کا وجود اس کے لئے ہے اور وہ صرف اللہ کے لئے، یہ کانیات اور اس کے سارے لوازمات صرف ایک سچے مسلمان کے لئے وجود میں آئے ہیں ، وہ اللہ کا اس سرزمین پر نائب اور خلیفہ ہے، اس کائنات کے تمام خزانوں اور ساری چیزوں کا وہ وارث ہے:
عالم ہے فقط مؤمن جانباز کی میراث
مؤمن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے
(نقوشِ اقبال ۱۲۱)
اقبال کا خیال ہے کہ ایک مؤمن زندگی کی غلط قدروں کے ساتھ مصالحت نہیں کرتا؛ بلکہ وہ زندگی کی فاسد قدروں سے نبرد آزمائی کرتا ہے، وہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ بہتے ہوئے دھارے کا رخ پھیردے، عالم کو اپنی راہ پر چلائے، تہذیب وتمدن اور معاشرہ اور سماج