قطب سے پہلی ملاقات ۱۹۵۰ء میں ہوئی تھی، ان کی مشہور کتاب ’’العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام‘‘ (اسلام میں عدل اجتماعی کا نظام) اور اس کے اقدامی (غیرمعذرت خواہانہ) اور جرأت مندانہ اسلوب سے مولانا بے حد متأثر ہوئے، سید قطب کے بعض خیالات سے مولانا کو اتفاق نہیں رہا جس کی کچھ تفصیل ’’التفسیر السیاسی للإسلام‘‘ میں ذکر کی ہے۔ ۱۹۵۱ء کے سفر مصر میں مولانا کی سید قطب سے کئی ملاقاتیں رہیں ، سید قطب بھی ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ سے بے حد متأثر تھے، اس پر مولانا نے ان سے مقدمہ بھی لکھوایا جو مستقل قیمتی مقالہ ہے، سید قطب نے مولانا کو بہت سراہا ہے، قصص النبیین پر بھي ان کا بڑا وقیع مقدمہ ہے۔
علماء عرب میں مفتی امین الحسینی سے بھی مولانا کے بڑے گہرے روابط رہے، فلسطین کے مسئلہ میں مفتی صاحب کی کاوش وکوشش اور اخلاص سے مولانا بے حد متأثر رہے۔ ۱۹۵۳ء میں قادیانیت کے خلاف مولانا نے ایک مضمون لکھا، مفتی صاحب نے اسے بڑی اہمیت دی اور الگ رسالہ میں شائع کیا، اسی طرح مولانا نے ایک رسالہ ’’الفتح للعرب المسلمین‘‘ تحریر کیا تھا، اس کو مفتی صاحب نے ’’العاقبۃ للمتقین‘‘ کے نام سے طبع کراکر تقسیم کیا۔
عالم عرب کے ادباء میں شیخ علی طنطاوی سے بھی مولانا کو بڑا تعلق تھا، طنطاوی صاحب مولانا سے اور ندوۃ العلماء سے بے حد متأثر تھے، مولانا کی متعدد کتابوں پر ان کے مقدمے پڑھنے کی چیز ہیں ، خود مولانا نے ان کی قوتِ تحریر، زورِ بیان اور اسلامیت کا بار بار اعتراف کیا ہے، مولانا کی معروف کتاب ’’مختارات‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح ’’ذکریات‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’مدارس کے لئے جن کتابوں سے میں واقف ہوں ان میں سب سے بہتر کتاب صدیق ادیب داعی مخلص شیخ ابوالحسن علی ندوی کی ’’مختارات‘‘ ہے، اس کی ضرورت ہے کہ