وشرکاء موجود تھے، مولانا کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ اخوان کے حلقہ میں بہت معروف ومقبول ہوچکی تھی اور اخوان نے بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلا کسی تعصب کے اسے اپنے مخصوص تبلیغی لٹریچر میں شامل کرلیا تھا، یہ کتاب اسی سفر میں ہر جگہ مولانا کے لئے تعارف کا ذریعہ بنتی رہی، مولانا نے شیخ کے والد شیخ احمد عبدالرحمن البناء سے ملاقات کی اور شیخ حسن البناء کے بارے میں کافی معلومات حاصل کیں ، اخوان کے ایک مشہور رہنما استاذ بہی خولی سے بھی ملاقات ہوئی، دیگر اخوانی پرجوش کارکنوں میں شیخ صالح عشماوی ’’مدیر الدعوۃ‘‘ استاذ عبدالحکیم عابدین، ڈاکٹر سعید رمضان وغیرہ سے بھی ملنا ہوا، خیالات وافکار کا تبادلہ بھی ہوا، اخوان کے عام اجتماعات پر اس وقت پابندی عائد تھی، مولانا ان کے مخصوص جلسوں میں شریک ہوتے، ایک بار مولانا کو تقریر کی شکل میں بھی اپنے خیالات وافکار پیش کرنے کا موقع ملا، یہ تقریر ’’ارید أن أتحدث إلی الإخوان‘‘ کے نام سے طبع ہوئی۔
اس دوران مولانا نے اخوانی لٹریچر کے سب سے بڑے مصنف شیخ محمد الغزالی کے ہمراہ مصر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور ہر جگہ اخوان کے جوش وضیافت، محبت واخلاص اور اخلاق اور فراخ دلی سے متأثر ہوئے، اسی موقع پر شام کے سفر میں بھی مولانا اخوان کے دفتر گئے، شامی اخوان کے نگرانِ عام ڈاکٹر مصطفی سباعی سے مولانا کے بڑے گہرے روابط بھی رہے، انھیں کی دعوت پر ۱۹۵۶ء میں مولانا نے دمشق یونیورسٹی میں لکچرس دئے۔
اخوانیوں سے خطاب کا مولانا کو بارہا موقع ملا، جولائی ۱۹۵۶ء میں دمشق سے واپسی پر مولانا بغداد میں رکے تو اس مختصر سے قیام کے دوران اخوانیوں کے اصرار اور تعلق کے پیش نظر اخوان کے دفتر میں تشریف لے گئے، اور ’’أزمۃ إیمان وأخلاق‘‘ (اصل بحران صرف ایمان واخلاق کا ہے) کے عنوان سے خطاب کیا۔
اخوان کے جن پہلوؤں سے مولانا متأثر ہوئے ان میں اس تحریک کی قوت عمل،