پاکستان صدر اجلاس رہے، اور مولانا کو مع دو رفقاء نائب صدر منتخب کیا گیا، یہ کانفرنس اپنے شرکاء کی کثرت وتنوع اور حسن انتظام کے لحاظ سے بے حد کامیاب تھی، آخری اجلاس کا آخری خطاب مولانا کے ذمہ تھا، مولانا نے نہایت بصیرت افروز اور ولولہ خیر خطاب فرمایا، جس میں حضرت صدیق اکبرؓ کے تایخی جملہ: ’’أینقص الدین وأنا حی‘‘ (کیا میرے جیتے جی دین میں کوئی قطع وبرید ہوسکتی ہے؟) کو اساس بناکر گفتگو ہوئی۔ اکتوبر ۱۹۸۷ء میں رابطۂ عالم اسلامی کے زیر اہتمام ایک مؤتمر اسلامی کا انعقاد مکہ مکرمہ میں ہوا، حرم کا نامبارک حادثہ (جو ۶؍ذی الحجہ کو ایرانیوں کی ہنگامہ آرائی کا نتیجہ تھا) اس کانفرنس کے انعقاد کا پیش خیمہ تھا، مولانا نے اس کے دوسرے اجلاس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی حرمت کے موضوع پر خطاب کیا، اور آیت کریمہ: {وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ} (اس میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے) سے اپنے خطاب کا آغاز فرمایا، کانفرنس کے چوتھے دن مولانا نے اپنا ایک قیمتی مضمون: ’’القرن الخامس عشر الہجری فی ضوء الواقع والتاریخ‘‘ (پندرہویں صدی ہجری ماضی وحال کے آئینہ میں ) کے عنوان سے پیش کیا، جس میں ممالک عربیہ خصوصاً حجاز کی موجود صورتِ حال، حقائق اور پیش نظر خطرات کی طرف کھل کر توجہ دلائی گئی تھی۔ آخری اجلاس میں مولانا نے ’’کلمۃ الوفود‘‘ بھی پیش کیا، اس موقع پر ’’المجمع الفقہی‘‘ کے جلاس میں بھی مولانا شریک ہوئے۔ ستمبر ۱۹۹۰ء میں رابطہ نے خلیج کے حالات، عراقی مظالم اور مملکت سعودیہ عربیہ کے سلسلہ میں اس کے خطرات واثرات کے پیش نظر ایک عالمی کانفرنس منعقد کی، اس میں پورے عالم اسلام کے نمائندے بڑی تعداد میں شریک ہوئے، مولانا نے پہلے اجلاس میں اپنا وقیع مقالہ ’’المأساۃ الأخیرۃ فی العالم العربی‘‘ (عالم عربی کا تازہ المیہ) پیش کیا، یہ مقالہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی کئی بار نشر ہوا، آخر اجلاس میں