اسلامی بیداری کے احیاء میں مولانا نے ہمیشہ اقدامی اور جرأت مندانہ اور حقیقت پسندانہ موقف اپنایا ہے، اس میں کہیں بھی مدافعت، بزدلی اور حقائق سے انحراف کا تصور نہیں ملتا، جو ان کی کتابوں اور اسفار کی تفصیلات سے بڑی حد تک نمایاں ہے۔
مولانا نے صرف اس بیداری میں حصہ ہی نہیں لیا؛ بلکہ اس بیداری کے کاروانِ تیز رَو کا جائزہ لیتے اور نگرانی بھی کرتے رہے، ہر موڑ پر اُسے صحیح خطوط ونقوش پر چلنے کی راہ دکھائی اور جادۂ حق اور راہِ اعتدال سے سر مو بھی انحراف انہیں گوارا نہ ہوا، چوں کہ مولانا ایک عرصہ تک دینی، دعوتی واصلاحی تحریکات کا مطالعہ کرتے رہے اور متعدد تحریکوں کو بڑے قریب سے دیکھا، بعض تحریکات کے قائدین وعاملین کے ساتھ ان کے گہرے مراسم اور مخلصانہ تعلقات بھی رہے، ان کو ان کا اعتماد حاصل رہا، مولانا ان تحریکات کی خوبیوں اور خامیوں سے آشنا رہے، اور خوبیوں کے اعتراف وستائش اور خامیوں کی نشان دہی اور دعوتِ اصلاح میں مولانا کا قدم کبھی پیچھے نہیں ہٹا، اسی لئے مولانا اسلامی بیداری کو صحیح رخ دینے، دینی واصلاحی کوششوں کو بیش از بیش مفید اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنے خیرخواہانہ مشورے اور آراء ہمیشہ دیتے رہے، مولانا کی کتاب ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح‘‘ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جس میں مولانا نے جماعت اسلامی کے قائد اور مفکر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی بعض ان تحریروں اور طریقۂ کار کا خیر خواہانہ جائزہ لیا اور نقد کیا ہے، جو موقف اعتدال سے ہٹی ہوئیث اور ان کی نگاہ میں امت کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی تھیں ۔
ہرہر مرحلہ پر مولانا نے اسلامی بیداری کی تحریکات اور کارکنان کے ساتھ خیرخواہانہ تعاون ونصیحت، مثبت، تعمیری ارو حکمت پسندانہ تنقید، شیرازہ بندی اور خلیج پاٹنے کی کوشش، اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں تمام اختلافات اور نفسانی خواہشات پر ضبط اور کنٹرول کرنے کی دعوت کا کام انجام دیا ہے۔