اثرات محسوس کئے گئے، ضرورت یہ تھی کہ بیداری کی یہ مہم صائب الرائے، سلیم الطبع اور صحیح الفکر علماء ومفکرین کی رہنمائی میں اپنا سفر طے کرے، ان کے تجربات ومشاہدات اور معلومات سے استفادہ کرے، اور تعمیری ومثبت تنقید پر اسے کوئی کبیدہ خاطری نہ ہو، اسی لئے علماء کرام اور مفکرین کے ایک وسیع حلقہ نے اپنے اپنے اثر ورسوخ اور طریقۂ کار سے اسلامی بیداری کی ذمہ داریاں بڑے انہماک سے انجام دیں ، اپنے افکار پیش کئے اور عملی اقدامات بھی کئے، چناں چہ اس کے خوش کن نتائج سامنے آئے۔
حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ اس طبقہ کی صف اول کے سرفہرست اور نمایاں لوگوں میں شامل ہیں ، مولانا نے اس بیداری کے شعلوں میں اشتعال اور دلوں میں حرارت وولولہ پیدا کیا ہے، اس صدی کے مفکرین اور داعیان میں شیخ حسن البناء شہید، مفتی محمد عبدہ، امیر عبدہ، امیر عبدالکریم خطابی، شیخ بن باز، شیخ محمد الغزالی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا محمد الیاس کاندھلوی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر محمد اقبال، سید قطب شہید، ڈاکٹر مصطفی سباعی، شیخ عبدالقادر عودہ، شیخ محمد ابوزہرہ، شیخ علی طنطاوی، شیخ یوسف قرضاوی جیسے بلند پایہ افراد نے اسلام کی صحیح ترجمانی، سچا شعور بیدار کرنے، اسلامی بیداری کو عام کرنے اور فروغ دینے، امت کو متحد اور جمع کرنے، ملت کے تشخص کی حفاظت اور مغربیت وفکری ارتداد سے اسلام اور مسلمانوں کو متنبہ کرنے اور بچانے میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ۔
حضرت مولانا علی میاں کا رول اس میں بہت ہی نمایاں ہے، انہوں نے اپنے خطبات ومقالات، مضامین ومحاضرات، مکاتیب ورسائل اور تصنیفات وتالیفات کے راستہ سے اسلامی بیداری کے سلسلہ میں جو خدمات انجام دی ہیں ، اس کی نظیر پیش کرنی مشکل ہے، ان کاسب سے بڑا امتیاز یہی ہے کہ انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ پورے عالم میں پھیلایا، اس عالمیت اور آفاقیت میں ان کا کوئی شریک وسہیم نہیں ملتا۔