مشاہدہ تھا اس کے پیش نظر ہمارے علم میں برصغیر میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا، مولانا نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں پوری صفائی سے عراقی حملہ کی مذمت کی اور واضح کیا کہ:
’’کویت پر صدام حسین کے اقدام کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ اسلام کی اخلاقی شہرت اور انسانی دعوت کو وہ نقصان پہنچا ہے جس کی تلافی برسوں نہیں ہوسکے گی، مسلمانوں کا سر شرم سے جھک گیا ہے، وہ اغیار کی شکایت اب کس منہ سے کریں جب ایک ہی مذہب کے مدعی، ایک ہی زبان کے بولنے والے اور ایک پڑوسی ملک نے ایک ایسے پڑوسی ملک پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کرلیا جو اس سے رقبہ میں بہت چھوٹا اور تاریخ میں بہت کم عمر اور غیرنمایاں ہے، ہمارے اس برصغیر (ہندوستان وپاکستان) کی ایک بڑی کمزوری یہ رہی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مغربی طاقت کے خلاف زور دار لفظ بول دے تو وہ ہیرو بن جاتا ہے، اس کی برائیوں کے ریکارڈ بھلادئے جاتے ہیں ، ہر لفظ جس میں ’’خطرپسندی‘‘ اور ’’مہم جوئی‘‘ ہو اس کو سن کر مسلمان دیوانے ہوجاتے ہیں ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس سے اسلام کی دعوت کو نقصان پہنچتا ہے، ’’پیام انسانیت‘‘ کے ایک داعی کی حیثیت سے اب یہ مشکل ہوگیا ہے کہ اس جرأت اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ کسی سے نہیں کہہ سکتے کہ کسی کی جان نہیں لینا چاہئے اور کسی کی زمین وجائیداد پر قبضہ نہیں کرنا چاہئے‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۵؍۱۸-۱۹)
واقعہ کی سنگینی مولانا کے بقول اس وجہ سے تاور بڑھ جاتی ہے کہ یہ واقعہ بلادِ عربیہ میں جہاں پیش آیا، جہاں سے احترامِ انسانیت، عدل، احسان شناسی اور شرافت اور کمزور کی حمایت وحفاظت کی عالمی تحریک ودعوت نمودار ہوتی تھی۔ مولانا نے اپنے خاص اسلوب اور طرزِ فکر (جس میں سب سے زیادہ نمایاں سلامت روی اور دور اندیشی ہے) کے مطابق اس حادثہ کی سنگینی اور اس کے انسانی واسلامی ضمیر پر بار ہونے کی متعدد وجوہ واسباب اپنے ایک رسالہ ’’المأساۃ الأخیرۃ فی العالم العربی‘‘ (عالم عربی کا تازہ المیہ)میں تحریر فرمائے ہیں ، جن کا حاصل مختصراُ یہ ہے:
۱ :- عراق جیسے بڑے اور طاقتور ملک نے جو حال ہی میں ایران جیسے عظیم ووسیع ملک سے جنگ میں کامیاب ہوچکا تھا، کویت جیسی چھوٹی ریاست پر حملہ اور قبضہ کرکے ایک