سخت چوٹ پہنچائی تھی، اس کا کچھ اندازہ ان کی تحریروں اور تقریروں سے ہوسکتا ہے، فلسطین کا یہ مسئلہ جو بیسویں صدی کے نصف آخر کا اہم ترین مسئلہ ہے، مولانا کی توجہ اور مساعی کامرکز بنارہا، فلسطین کے مسئلہ کو سلجھانے اور حل کرنے کے لئے مولانا نے جو کوششیں فرمائی ہیں ان سے مولانا کی دور اندیشی، باریک بینی، نتائج کے بجائے اسباب کی تلاش وجستجو اور فراست وبصیرت نمایاں ہے۔ مولانا کا یہ عقیدہ تھا کہ فلسطین کا یہ سانحہ اللہ کا عذاب ہے، جو خیانت وبد عملی کی وجہ سے عربوں پر مسلط ہوا ہے، یہ محض آزمائش یا ظلم یا اتفاقی واقعہ نہیں ہے، اور یہودیوں کا یہ خطرہ صرف فلسطین اور فلسطینیوں تک محدود نہیں رہے گا، اس کے اثرات سارے عرب ممالک تک پہنچائیں گے۔
مولانا نے عرب ممالک کی بہت قریب سے زیارت کی ہے اور وہاں غیر اسلامی مذبذب سیاسی حکومتوں کا ضعف ارادہ اور مغربی ملکوں کے چشم وابرو کی پیروی کے تکلیف دہ مناظر کا مشاہدہ کیا ہے، اربابِ حل وعقد اور ذمہ داران وقائدین کے اخلاق وکردار، راحت پسندیوں ، عیش کوشیوں اور مادیت پرستیوں کو بڑے غور سے دیکھا ہے، خصوصاً مصر کا مولانا نے بڑے غور سے مشاہدہ کیا ہے، جو عالم عربی کا زعیم اور تمام ادبی، علمی اور دینی تحریکات کا مرکز رہا ہے، جہاں ادباء، اصحابِ قلم اور دانشوروں نے دینی طاقتوں ، اخلاقی واجتماعی اقدار اور تاریخی انمٹ حقائق کا مذاق اڑایا اور اپنے ادب وفن کی سای توانائیاں صالح زندگی اور اخلاقِ کریمانہ کی بنیادیں منہدم کرنے، حق وناحق کی پروا کئے بغیر فکری اضطراب پیدا کرنے میں صرف کردی ہیں ۔ مولانا نے علماء اور دین کے ٹھیکے داروں کو حق گوئی، باطل پر تنقید اور عدل وانصاف کے تقاضے پورا کرنے سے بھاگتے اور گھٹیا قدروں کے پیچھے دنیا دار، مادیت پرست اور غلط مقاصد کی تکمیل، اہل خاندان کو ہر بجا وبے جا میں خوش رکھنے اور معیارِ زندگی بہرصورت اونچا اور خوب تر کرنے کی فکر میں منہمک افراد کی طرح دوڑتے دیکھا، عام لوگوں اور نچلے طبقات کا گانے بجانے، عیش وطرب، لہو ولعب غرضیکہ سماعت وبصارت ارو تخیل کی تمام تر لذتوں کے حصول