کی تفسیر پر اپنے تأثرات اور اس کے بعض مضامین کو عربی میں منتقل کرنے کی اجازت چاہی، جو انہوں نے بخوشی دے دی، اس کے بعد کئی ملاقاتیں ہوئیں اور مولانا آزاد دیر تک شفقت سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے۔ ایک مجلس میں مولانا آزاد نے یہ پوچھا کہ آپ کون سے مضامین پڑھتے ہیں ، مولانا نے جواب دیا، پھر کئی سال کے بعد ملاقات میں اُن مضامین کا تذکرہ مولانا آزاد نے کیا، حضرت مولانا کو مولانا آزادؒ کی ایسی چھوٹی جزئیات یاد رکھنے پر حیرت ہوئی، ۱۹۵۱ء میں مولانا کے قیام مصر کے دوران مولانا آزادؒ اپنے یورپ کے ایک سفر میں قاہرہ سے گذرے تو ایئرپورٹ پر اُن کے استقبال میں ہندوستانی سفارت خانہ کی طرف سے ایک تقریب رکھی گئی، اس میں مولانا علی میاں ؒ کو بھی مدعو کیا گیا، موالانا آزاد تشریف لائے اور آخر تک روئے سخن مولانا ہی کی طرف رہا، گفتگو تمام تر علمی تھی، اس دوران سفارت خانہ کے ذمہ داران باربار مولانا کو متوجہ کرتے رہے کہ سب سے باتیں کی جائیں ، وقت کی کمی کی طرف بھی توجہ دلاتے رہے؛ لیکن مولانا آزادؒ بدستور مولانا اور ان کے احباب ہی کی طرف متوجہ رہے، یہ غایت تعلق کی دلیل ہے۔
زمانۂ وزارت میں مولانا آزاد سے مولانا کی کئی بار ملاقات ہوئی، ایک بار شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کی دعوت پر مولانا دہلی گئے؛ تاکہ وہ مولانا آزاد کو اُن کی موجودگی میں ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کی بقیہ جلدوں کی طباعت کی طرف توجہ دلائیں ۔ جمعیۃ علماء کے اجلاس میں یہ موقع آیا، حضرت مدنیؒ نے ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کا تذکرہ مولانا آزاد سے کیا، مولانا آزاد نے اپنی دلچسپی اور واقفیت کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اسے ضرور چھپنا چاہئے، پھر مولانا آزاد ہی کی یاد دہانی اور فرمانے پر دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد نے بقیہ جلدیں بھی طبع کیں ۔
ایک بار مولانا علی میاں ؒ ندوۃ العلماء کے کسی کام سے مولانا آزاد سے ملے، انہوں نے بڑی دلچسپی لی، کام کی تکمیل کردی اور مفید مشورے دئے۔ (پرانے چراغ حصہ دوم)