اصلاح کی کوشش کی جائے، حضرت مولانا علی میاں ؒ نے اپنے دمشق کے سفر ۱۹۵۹ء میں یہی دو متضاد پہلو وہاں کے مسلم نوجوانوں اور اخوانی کارکنوں میں محسوس کئے، اس موقع پر مولانا کو مولانا گیلانیؒ کا یہ نظریہ معتدل معلوم ہوا اور اپنے ایک خط میں یہ تأثر مولانا گیلانی کو تحریر بھی کردیا، اس کے جواب میں مولانا گیلانیؒ نے تحریر فرمایا کہ:
’’بڑی مسرت اس بات سے بھی ہوئی کہ مسلمانوں کی نئی پود کے متعلق آپ پہلے آدمی ہیں ، جن کے قلم سے میری آنکھوں نے وہی لکھا ہوا پایا جس کا برسوں سے انتظار کرتا رہا، ممکن ہے یہی نقطۂ نظر دوسرے اربابِ فکر وبصیرت کا بھی ہو؛ لیکن جن جچے تلے الفاظ میں اپنے احساسات کا اس سلسلہ میں آپ نے اظہار فرمایا ہے، خاکسار تو نکتہ چینوں سے اتنی جرأت بھی نہیں کرسکتا‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۸۸-۸۹)
مولانا گیلانی کو تاریخ اسلامی مراکز اور تاریخ اسلام سے بڑا گہرا لگاؤ تھا، بلادِ عربیہ کی سیاحت کا بڑا ارمان تھا، حضرت مولانا علی میاں ؒ کو دمشق یونیورسٹی مآں ۱۹۵۶ء میں استاذ زائر (Visiting Professor) کی حیثیت سے مدعو کیا گیا، تو مولانا گیلانی نے ایک مکتوب مولانا کو لکھا، جس میں مولانا گیلانی کی محبت وبے نفسی اور خلوص اور اخلاقی بلندی کا عکس نمایاں دیکھا جاسکتا ہے۔ مولانا گیلانی نے لکھا کہ:
’’اخبار ’’الجمعیۃ‘‘ اسی کے بعد ’’مدینہ‘‘ میں بھی اس تاریخی امتیاز کی خبر پڑھی، جو صدیوں کے بعد ہندوستان کو حاصل ہوا، علامہ صفی الدین بدایونی کے بعد شاید آپ دوسرے ہندی عالم ہیں ، جن کو شام میں پڑھانے اور اپنے علوم سے شامیوں کو فائدہ پہنچانے کا موقع ملا؛ بلکہ صفی ہندی تو خود گئے تھے اور آپ کو تو وہاں کی حکومت اور جامعہ نے طلب کیا ہے۔ وشتان بینہما، یہ امتیاز آپ کی شخصیت تک ہی محدود نہیں ہے؛ بلکہ سارے ہندی علماء کے لئے سرمایۂ افتخار ہے: یا لیت کثر اللّٰہ امثالکم فینا‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۱؍۴۲۱-۴۲۲ مختصراً)
اسی سفر میں مولانا نے دمشق سے ایک مکتوب مولانا گیلانی کو لکھا، تو اس کے جواب میں مولانا گیلانی نے بڑا وجد انگیز مکتوب لکھا اور یہ بھی تحریر کیا کہ: