سے زیادہ مؤثر کتاب نہیں پڑھی‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۶۷)
مولانا گیلانی سے مل کر حضرت مولانا کو ہمیشہ عزیزانہ قرابت اور ذوقی وعلمی مناسبت کا احساس ہوا، خود مولانا کی تصنیفات مولانا گیلانی نے بڑے ذوق وشوق سے پڑھیں ، خصوصاً ’’مذکرات سائح فی الشرق العربی‘‘ (شرق اوسط کی ڈائری) سے بہت متأثر ہوئے۔ ۱۹۵۳ء میں علامہ سید سلیمان ندویؒ کے انتقال کے بعد ندوۃ العلماء میں سید صاحب سے متعلق ایک سنجیدہ اور علمی اجتماع کا انعقاد طے پایا، جس میں مولانا علی میاں ؒ نے مولانا گیلانی کے نام ایک مکتوب میں تشریف آوری کی درخواست کی، اور یہ بھی لکھا کہ خواہ مجھے خود حاضر ہونے پڑے؛ لیکن یہ زحمت آپ کو نیازمندوں کی خاطر برداشت کرنی پڑے گی۔ مولانا گیلانیؒ نے ایک مفصل مکتوب اس کے جواب میں لکھا جس کا ایک اقتباس یہ ہے:
’’آپ نے اپنے اس نوازش نامہ میں اس فقیر کے متعلق جن غیر استحقاقی الفاظ کا استعمال فرمایا ہے، ان کو پڑھ کر بے ساختہ آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، بہر حال آپ جیسے سعید قلوب کے حسن ظن کو اپنی مغفرت کا ذریعہ سمجھتا ہوں ‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۷۹-۸۰ مختصراً)
اس کے بعد مولانا گیلانی کا تعلق خاطر مولانا سے بڑھتا گیا، مولانا نے تحریر فرمایا کہ:
’’واقعہ یہ ہے کہ مجھے بھی اُن سے جو فکری مناسبت اور قلبی تعلق محسوس ہوتا تھا، وہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے اپنے ایک شفیق استاذ اور عزیز بزرگ سے ہوتا ہے‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۸۲)
ایک مکتوب میں مولانا گیلانیؒ نے حضرت مولانا علی میاں کوان ہستیوں میں بھی شامل فرمایا ہے جن کی محبت واخلاص کو وہ اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں ، اس سے اس تعلق کی گہرائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
مولانا گیلانی نے اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں یہ نظریہ قائم کرلیا تھا کہ صرف ظاہری شکل وصورت پر کسی شخص کے قح باطن یا اس کے بے دین ہونے کا فیصلہ نہ کیا جائے، نیز یہ کہ اس کے قلب واندرون کی اسلامیت کی قدر کرتے ہوئے اس کے ظاہر کی