ان خداداد صفات اور خصوصیات کی وجہ سے جن کی اللہ کے ہاں اور اس کے مقبول بندوں کے ہاں بھی زیادہ قدر وقیمت ہے، حضرتؒ کے ہاں محبوبیت کا جو مقام ان کو حاصل ہوا وہ اس ناچیز کے لئے موجب مسرت ہونے کے باوجود ہمیشہ رشک وغبطہ کا باعث بھی بنا رہا۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔
(سوانح حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری، از: مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ۲۲؍طبع سوم)
مولانا سے حضرت رائے پوریؒ کی محبت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ایک مکتوب میں مولانا کو ’’سیدی ومولائی‘‘ کے بلند الفاظ سے مخاطب کیا ہے، مولانا حضرت رائے پوریؒ کے مجاز وخلیفہ بھی ہیں ، اس کا ذکر خود مولانا نے کیا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’حضرت (رائے پوریؒ) نے اپنے سفر لکھنؤ کے موقع پر جو اپریل ۱۹۴۸ء میں ہوا تھا، ۲۶؍اپریل ۱۹۴۸ء کو ہمارے وطن دائرۂ شاہ علم اللہ رائے بریلی کو دوبارہ شرف بخشا، وہیں ایک روز بے سان گمان حضرت شاہ علم اللہؒ اور سید صاحبؒ کی مسجد سے باہر نکلتے ہوئے مجھ سے فرمایا، میں آپ کو چاروں سلسلوں بالخصوص حضرت سید صاحب کے سلسلہ میں اجازت دیتا ہوں ‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۱؍۳۵۳)
اس کے بعد مولانا نے بار بار رائے پور کا سفر کیا اور یہ تعلق مستحکم ہوتا چلاگیا، ۱۹۵۰ء میں حضرت رائے پوری کی ہم رکابی میں مولانا سفر حج پر تشریف لے گئے، اس سفر میں حضرت کی شفقت کے بڑے واقعات پیش آئے، حضرت نے مولانا سے فرمایا کہ یہ سفر میں نے تمہارے لئے کیا ہے، مولانا کی تصانیف خصوصاً سیر وسوانح کی کتابوں سے حضرت رائے پوریؒ کو بڑی دلچسپی تھی، طباعت سے قبل ہی مسودہ منگواکر پوا سن لیا کرتے تھے، تاریخ دعوت وعزیمت کے بارے میں اپنے ایک مکتوب میں مولاناکو لکھتے ہیں کہ آپ کی کتاب سے سیری نہیں ہوتی، تاریخ دعوت وعزیمت کی تیسری جلد حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء سے متعلق ہے، یہ مکمل نہ ہوسکی تھی، اور حضرت رائے پوریؒ ہر ملاقات میں مولانا سے اس کی تکمیل کا تقاضا کرتے تھے۔ ۱۹۶۱ء میں اسے مکمل کرکے مولانا نے پیش کیا، تو حضرت نے پوری کتاب