) اور پاک ہونے کے بعد غسل کرکے طوافِ زیارت اورسعی کرے ،اور یہ حج اس کاافراد ہوگا، لہذا تمتع کی قربانی اس پر لازم نہ ہوگی۔پھر ۱۳ ذی الحجہ کے بعد اپنے چھوڑے ہوئے عمرہ کی قضاء کرے ،اور رفض عمرہ (یعنی جو عمرہ ترک کیا تھا) کی وجہ سے ایک دمِ جنایت بھی دینا ہوگا۔ قال الإمام محمدبن الحسن فی مؤطئه بعد روایات ابن عمر، فان کانت أهلت بعمرۃ فخافت فوت الحج فلتحرم بالحج و تقف بعرفة و ترفض العمرۃ ، فإذا فرغت من حجها قضت العمرۃ کما قضتها عائشة رضی الله تعالی عنها و ذبحت مااستیسر من الهدی : بلغنا : أن النبی صلی الله علیه وسلم ذبح عنها بقرۃ۔ (مؤطا إمام محمد رحمه الله تعالی ) و انظر معارف السنن ج۶/۳۶۳) وروی ابن أبی شیبة بإسناد صحیح عن ابن عمر رضی الله تعالی عنه قال (تقضی(الحائض) المناسک کلها إلاالطواف بالبیت وبین الصفا والمروۃ السعی مسبوق بالطواف فإذالم تطف لم تسع لا لأجل اشتراط الطهارۃ للسعی بل لعدم