Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

95 - 188
خان عبد الولی خان مرحوم
خان عبد الولی خان 90 برس کے لگ بھگ عمر پا کر پشاور میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی پاکستان کی قومی سیاست اور پختونوں کی قومیتی سیاست کا ایک باب مکمل ہوگیا۔ وہ پاکستان اور صوبہ سرحد کی سیاست میں نصف صدی سے زیادہ عرصے تک متحرک رہے اور مختلف تحریکوں میں انہوں نے سرگرم کردار ادا کیا۔ ان کے والد محترم خان عبد الغفار خان مرحوم کو جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل تھا اور وہ اس خطے کی تحریک آزادی کے سرکردہ راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ خان عبد الغفار خان کی سیاست کا آغاز شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی اس تحریک سے ہوا جسے دنیا ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے اور جس کے نتیجے میں شیخ الہندؒ کو مالٹا کے جزیرے میں ساڑھے تین برس سے زیادہ عرصے تک بڑھاپے کے ایام گزارنا پڑے۔
یہ برصغیر پاک و ہند اور بنگلہ دیش کی برطانوی استعمار سے آزادی کی جدوجہد تھی جو مسلح بغاوت کی صورت میں منظم کی جا رہی تھی۔ اس میں جاپان اور جرمنی کے ساتھ روابط قائم کیے گئے تھے جو اس وقت (پہلی عالمی جنگ میں) برطانیہ کے حریف تھے اور ترکی کی خلافت عثمانیہ کو آمادہ کیا گیا تھا کہ اگر متحدہ ہندوستان کے اندر سے برطانوی تسلط کے خلاف مسلح بغاوت ہو تو وہ مجاہدین آزادی کی مدد کرے گی۔ عثمانی وزیر جنگ انور پاشا اور حجاز مقدس میں عثمانی خلافت کے نمائندے غالب پاشا کے ساتھ معاملات حتمی طور پر طے پا رہے تھے کہ خلافت عثمانیہ کے خلاف گورنر مکہ شریف حسین کی بغاوت اور اس کے ساتھ ہی ریشمی رومالوں کی صورت میں تحریر کیے گئے بغاوت کے منصوبے کے بعض حصوں کے انکشاف نے سارا معاملہ چوپٹ کر دیا۔ مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور ان کے رفقاء کو حجاز مقدس سے گرفتار کر کے مالٹا کے جزیرے میں محبوس کر دیا گیا۔ ادھر متحدہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں گرفتاریاں شروع ہوئیں اور تحریک کے خفیہ مراکز پولیس ایکشن کے زد میں آگئے۔ اس تحریک کے مراکز میں ایک ’’اتمان زئی‘‘ بھی تھا جو خان عبد الولی خان کی جائے پیدائش ہے۔ ان کے والد خان عبد الغفار خان اس مرکز کے ذمہ دار تھے اور نہ صرف یہ بلکہ وہ قبائلی مجاہدین کے ساتھ حضرت شیخ الہندؒ کے روابط کا ایک اہم ذریعہ بھی تھے۔
یہ برطانوی استعمار کے خلاف مسلح تحریکات کا آخری باب تھا جس کی ناکامی کے بعد تحریک آزادی کا رخ مکمل طور پر پر امن جدوجہد کی طرف مڑ گیا اور شیخ الہندؒ نے بھی مالٹا کی قید سے رہائی کے بعد ہندوستان واپس آنے پر اسی پر صاد کیا۔ اس پس منظر میں ’’جمعیۃ علمائے ہند‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے 1926ء میں کامل آزادی کے نعرے کے ساتھ برطانوی استعمار کے خلاف پر امن سیاسی جدوجہد کا اعلان کیا۔ اس کے بعد 1930ء میں ’’آل انڈیا نیشنل کانگریس‘‘ نے آزادیٔ کامل کو اپنی سیاسی جدوجہد کی حقیقی منزل قرار دیا۔ خان عبد الغفار خان مرحوم کو شیخ الہندؒ کے ایک رفیق کار کی حیثیت سے جمعیۃ علمائے ہند کے ایک بزرگ راہنما کی حیثیت حاصل تھی۔ پھر جب وہ مہاتما گاندھی کی قیادت میں آل انڈیا نیشنل کانگریس میں شریک ہوئے تو گاندھی جی کے ’’فلسفہ عدم تشدد‘‘ اور آزادی کے لیے پر امن سیاسی جدوجہد میں آگے بڑھتے چلے گئے حتیٰ کہ ’’سرحدی گاندھی‘‘ کے لقب سے پکارے جانے لگے۔ صوبہ سرحد کے عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور انہیں آزادی کی جدوجہد کے لیے تیار کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی میدان میں بھی خان عبد الغفار خان کی ’’خدائی خدمت گار تحریک‘‘ کا ایک بڑا کردار ہے۔ صوبہ سرحد کے عوام کے سیاسی و سماجی ارتقاء کی تاریخ میں ان کی خدمات کو ایک مستقل باب کی حیثیت حاصل ہے۔
اس قدرے تفصیلی پس منظر کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ خان عبد الولی خان مرحوم نے اس ماحول میں شعور کی آنکھ کھولی تھی اور ان کی نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط جدوجہد پر اس ماحول اور پس منظر کی چھاپ ہر مرحلے میں نمایاں نظر آتی ہے۔ خان عبد الولی خان اپنے والد خان عبد الغفار خان مرحوم کی طرح کانگریسی تھے اور اس کے اظہار میں انہیں کبھی حجاب نہیں رہا تھا۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ راوی ہیں کہ 1970ء کے عام الیکشن کے بعد جب شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو، اور جنرل یحییٰ خان کے درمیان سیاسی دھماچوکڑی کا آغاز ہوا تو قومی اسمبلی میں چھوٹی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے مل کر مفاہمت کے لیے کردارا دا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے جب ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ مولانا مفتی محمود اور خان عبد الولی خان کے مذاکرات ہو رہے تھے تو انہوں نے شیخ مجیب الرحمان سے یہ تاریخی جملے کہے کہ
’’شیخ صاحب ! آپ مسلم لیگی ہیں اور ہم کانگریسی ہیں۔ کل آپ برصغیر کی تقسیم کی بات کر رہے تھے تو ہم نے اس سے اختلاف کیا تھا کہ ایسا نہ کرو کہ اس سے مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔ اور آج جب پاکستان کو تقسیم کرنے کی بات ہو رہی ہے تو ہم آپ سے یہ کہنے آئے ہیں کہ پاکستان کو نہ ٹوٹنے دیں اس سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا‘‘۔
خان عبد الولی خان مرحوم کو میں نے پہلی بار اس وقت دیکھا جب وہ 1970ء کے الیکشن کے بعد جمعیۃ علمائے اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کے سیاسی اتحاد کے دور میں گوجرانوالہ آئے اور مرکزی جامع مسجد شیرنوالہ باغ میں عوام کے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔ وہ دوٹوک لہجے میں بات کرنے کے عادی تھی، مجھے ان کے اس انداز نے بہت متاثر کیا۔ انہوں نے اس جلسے میں بھٹو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے دو لطیفے سنائے جو آج تک میرے ذہن میں تازہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو حکومت کو پنجاب اوپر لایا ہے اس لیے پنجاب ہی کو اسے اتارنے کے لیے بڑا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اس پر انہوں نے ایک لطیفہ سنایا کہ ایک دور دراز دیہات کا رہنے والا شہر میں آیا تو کوئی مؤذن مسجد کے مینارے پر چڑھ کر اذان دے رہا تھا۔ جس زمانے میں لاؤڈ اسپیکر نہیں ہوتے تھے، مؤذن اسی طرح بلند مینار پر چڑھ کر اذان دیا کرتے تھے تاکہ آواز زیادہ دور تک جا سکے۔ اس دیہاتی نے مؤذن کو بلند مینار پر اذان دیتے ہوئے دیکھا تو سمجھا کہ اس کو نیچے اترنے کے لیے راستہ نہیں مل رہا اور مدد کے لیے چیخ و پکار کر رہا ہے۔ وہ آگے بڑھا اور مینار کے چاروں طرف گھوم کر اس نے دیکھا کہ مدد کے لیے اس کے پاس پہنچنے کا کوئی راستہ ہے؟ جب کسی طرف سے کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو نیچے سے بلند آواز کے ساتھ مؤذن کو پکارا کہ ’’بھئی مجھے تو کوئی راستہ نظر نہیں آرہا، اس لیے جس نے تجھے اوپر چڑھایا ہے وہی تجھے نیچے بھی اتارے گا‘‘۔
دوسری بات ولی خان مرحوم نے یہ کہی کہ پاکستان ایک بار ٹوٹ چکا ہے اب باقی ماندہ پاکستان کو بچانے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہماری حرکتوں کی وجہ سے خدانخواستہ یہ بھی نہ ٹوٹ جائے۔ اس پر انہوں نے ایک اور لطیفہ سنایا کہ ایک شخص چوڑیوں کی ٹوکری زمین پر رکھے کھڑا تھا کہ پولیس کا ایک سپاہی آیا، اس نے ٹوکری کو ٹھوکر مار کر پوچھا کہ اس میں کیا ہے؟ ٹوکری والے نے جواب دیا کہ جناب ایک ٹھوکر اور مار دیں تو اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔
خان عبد الولی خان مرحوم اور مولانا مفتی محمودؒ کی سیاسی رفاقت پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اسی رفاقت کے باعث مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے اور پاکستان میں علمائے کرام کے لیے اقتدار کی سیاست کا دروازہ وا ہوا۔ اسی رفاقت کی وجہ سے 1973ء کا دستور اس صورت میں منظور ہوا کہ اس میں اسلامی نظام، جمہوریت، اور صوبوں کے حقوق کے معاملات ایسے توازن کے ساتھ ایڈجسٹ ہوگئے کہ بہت سے نازک مراحل سے گزرنے کے باوجود یہ دستور آج بھی پاکستان کے تمام صوبوں کا متفقہ دستور ہے اور اسے پاکستان کی بقاء و استحکام، اسلام و جمہوریت کی پاسداری، اور صوبوں کے حقوق کے تحفظ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کوئی سمجھدار مؤرخ اس دور میں ملکی سیاست اور پاکستان کے مستقبل پر جمعیۃ علمائے اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کی سیاسی رفاقت کے اثرات کا جائزہ لینا چاہے تو یہ بڑی دلچسپی کا حامل موضوع ثابت ہوگا اور قومی سیاست کے بہت سے عقدے حل ہوتے نظر آئیں گے۔ خان عبد الولی خان مرحوم نے بہت سے معاملات میں مولانا مفتی محمودؒ پر اعتماد کیا بلکہ انہیں کھلے بندوں اپنا امام تک کہہ دیا۔ اسی طرح مولانا مفتی محمودؒ نے بھی مختلف مواقع پر خان عبد الولی خان مرحوم کو بھرپور اعتماد سے نوازا۔
1972ء میں صوبہ سرحد میں حکومت کی تشکیل کے لیے جمعیۃ علمائے اسلام کو دو بڑے باہمی سیاسی حریفوں خان عبد الولی خان مرحوم اور خان عبد القیوم خان مرحوم کی طرف سے یکساں طور پر پیشکش کی گئی تھی۔ دونوں جمعیۃ علمائے اسلام کی قیادت میں صوبائی حکومت بنانے کے لیے تیار تھے اور دونوں نے جمعیۃ علمائے اسلام کی طرف سے پیش کردہ تمام شرائط کو منظور کر لیا تھا۔ اب یہ فیصلہ جمعیۃ علمائے اسلام کے کورٹ میں تھا کہ وہ ان میں سے کس کو ترجیح دیتی ہے۔ جمعیۃ علمائے اسلام کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں جمعیۃ کے دو بڑے بزرگوں میں اس پر اختلاف ہوگیا۔ مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی رائے خان عبد القیوم خان مرحوم کے ساتھ کولیشن بنانے کی تھی جبکہ مولانا مفتی محمودؒ چاہتے تھے کہ خان عبد الولی خان مرحوم کے ساتھ کولیشن بنائی جائے۔ دونوں میں اس حوالے سے زبردست معرکہ آرائی ہوئی مگر بالآخر مولانا مفتی محمودؒ جمعیۃ کی مجلس شوریٰ سے اپنی رائے منوانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ خان عبد الولی خان اور ان کے ساتھی بھروسے کے لوگ ہیں، وہ جو بات طے کریں گے اس پر قائم بھی رہیں گے۔ جبکہ خان عبد القیوم خان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کس وقت کون سا رخ اختیار کریں۔ یہ خان عبد الولی خان اور نیشنل عوامی پارٹی کی اصول پسندی اور وضعداری پر مولانا مفتی محمودؒ اور جمعیۃ علمائے اسلام کی طرف سے اعتماد کا اظہار تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جمعیۃ کو اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی کہ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کا راستہ بتدریج الگ ہوتا چلا گیا۔
خان عبد الولی خان مرحوم معروف معنوں میں ایک ’’قوم پرست پختون لیڈر‘‘ تھے اور اس حوالے سے انہیں ایک علاقائی سیاستدان سمجھا جاتا تھا۔ لیکن قومی سیاست میں انہوں نے پاکستان کو متحد رکھنے، ملک کے تمام لوگوں کے حقوق کے تحفظ، جمہوری اقدار کی بالادستی، اور ملکی وحدت و سالمیت کے استحکام کے لیے جو مسلسل کردار ادا کیا اسے کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں گزشتہ کسی کالم میں اپنے اس تاثر اور احساس کا تذکرہ کر چکا ہوں کہ 1972ء کی قومی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم، مولانا مفتی محمودؒ، اور خان عبد الولی خان مرحوم کے درمیان جو سہ فریقی اتحاد ہوا تھا، وہ اگر نہ ٹوٹتا تو ان حالات میں پاکستان کو اس سے بہتر سیاسی قیادت میسر نہیں آسکتی تھی۔ یہ ٹیم اگر مل کر ملک کی قیادت کرتی تو آج نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا اور عالم اسلام کی صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ مگر ملک و قوم کی بدقسمتی سے یہ ’’سہ فریقی معاہدہ‘‘ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور نادیدہ قوتوں نے 1972ء کے باقی ماندہ پاکستان کو اس کی صحیح قیادت سے محروم کر دیا۔
مجھے خان عبد الولی خان مرحوم کے ساتھ زیادہ ملاقاتوں کا موقع نہیں ملا لیکن میں ان کے مداحوں میں سے ہوں۔ بہت سے معاملات میں ان سے اختلاف بھی رہا اور رائے و موقف کی حد تک آج بھی وہ اختلاف قائم ہے، لیکن ان کی وضعداری اور اپنی بات پر قائم رہنے کی روایت میرے نزدیک ہمیشہ قابل تعریف رہی ہے۔ وہ ملک کے بزرگ سیاستدانوں میں سے تھے، انہوں نے اپنے بعض تحفظات کے باوجود ہمیشہ ملکی استحکام اور سالمیت کی بات کی اور ایک لبرل بلکہ سیکولر سیاستدان ہونے کے باوجود دستور میں اسلامی دفعات، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، اور دیگر بہت سے دینی معاملات میں دینی جماعتوں کا ساتھ دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور ان کے جانشین اسفند یار ولی خان کو اپنے باپ دادا کی روایات کو قائم رکھنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ پاکستان، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۳۰ جنوری ۲۰۰۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter