Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

120 - 188
الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ کا نام پہلی بار افغانستان کی پہاڑیوں میں جہادِ افغانستان کے دوران سنا جب افغانستان میں روسی افواج کی آمد اور سوشلسٹ نظریات کے تسلط کے خلاف افغانستان کے مختلف حصوں میں علماء کرام اور مجاہدینِ آزادی نے علمِ جہاد بلند کیا اور افغانستان کی آزادی کی بحالی اور اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے میدانِ کارزار میں سرگرم ہوگئے۔ ابتداء میں یہ مجاہدین کسمپرسی کے عالم میں لڑتے رہے حتیٰ کہ پرانی بندوقوں اور بوسیدہ ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ بوتلوں میں صابن اور پٹرول بھر کر ان دستی بموں کے ساتھ روسی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ دنیا انہیں دیکھ کر مجنون سمجھتی رہی، چٹان کے ساتھ سر ٹکرانے اور خودکشی کرنے کے طعنے دیتی رہی مگر ان خدامست لوگوں نے کسی طعنے اور الزام کی پراو کیے بغیر سر ٹکرانے کا یہ عمل جاری رکھا۔ مجھے وہ دور اچھی طرح یاد ہے جب شیرانوالہ لاہور کے ہمارے ایک بزرگ حضرت مولانا حمید الرحمان عباسیؒ شب و روز محنت کر کے آٹا، چینی اور دیگر ضروریات جمع کرتے اور جب ٹرک کے برابر سامان ہو جاتا تو اسے افغانستان پہنچانے کا بندوبست کرتے۔
پھر جب دنیا کو یہ نظر آنے لگا کہ یہ چٹان سے سر ٹکرانے والے آسانی سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اور چٹان کے اپنی جگہ سے سرکنے کا امکان پیدا ہوتا جا رہا ہے تو پوری دنیا اس طرف متوجہ ہوگئی۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو سرد جنگ میں سوویت یونین کو شکست دینے کے خواہاں تھے، وہ لوگ بھی تھے جو گرم پانیوں اور خلیج عرب تک سوویت یونین کی رسائی کو روکنا چاہتے تھے، اور وہ لوگ بھی بڑی تعداد میں تھے جنہوں نے قرآن و حدیث میں جہاد کی اہمیت و فضیلت کا سبق پڑھ رکھا تھا اور تاریخ میں مجاہدین کے کارنامے پڑھ پڑھ کر ان کے دل جہاد میں حصہ لینے کے لیے مچلتے تھے مگر کوئی عملی میدان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان بین الاقوامی کشمکش کا بہت بڑا میدان بن گیا اور مختلف ملکوں اور طبقات کے لوگ جہاد کے اس عمل میں مشغول پائے جانے لگے۔ افغان مجاہدین کی مختلف جماعتیں وجود میں آئیں، ان کے اتحاد تشکیل پائے، بیرونی قوتوں سے ان کے رابطے ہوئے، ہتھیاروں اور رقوم کی ریل پیل ہوئی اور افغانستان مجاہدین کی بھرتی اور ٹریننگ کا عالمی مرکز بن گیا۔
اس دوران میرا بھی افغانستان آنا جانا رہتا تھا، بہت سے مورچوں میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔ لڑنا تو میں سرے سے نہیں جانتا اور نہ ہی کسی ہتھیار کی ٹریننگ حاصل کر سکا۔ ایک بار کسی انٹرویو میں مجھ سے سوال ہوا کہ کیا آپ ہتھیار چلانا جانتے ہیں؟ میں نے قلم ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ یہ میرا ہتھیار ہے اور اس کو چلانا بحمد اللہ تعالیٰ اچھی طرح جانتا ہوں۔ میرا مورچوں میں جانا دو مقاصد کے لیے ہوتا تھا۔ ایک یہ کہ اس سے مجاہدین کی حوصلہ افزائی ہوتی اور دوسرا اس لیے کہ وہاں سے تازہ معلومات حاصل کر کے قلم کے ذریعے اپنے قارئین کو ان سے آگاہ کرتا تھا۔ ان دنوں میں جمعیۃ علمائے اسلام کے آرگن ہفت روزہ ترجمانِ اسلام لاہور کا چیف ایڈیٹر تھا اور ایسے مقامات پر آنے جانے کے لیے میرا بڑا ٹائٹل یہی ہوا تھا۔ میں وقتاً فوقتاً کسی مورچے میں جاتا، ایک دو دن رہتا اور واپسی پر اپنے مضامین کے ذریعے تاثرات و معلومات قارئین کی خدمت میں پیش کر دیتا۔ اس دور میں میرے بیسیوں مضامین ہفت روزہ ترجمانِ اسلام اور ملک کے دیگر اخبارات و جرائد میں شائع ہوئے۔
جہادِ افغانستان میں عرب ممالک سے ہزاروں نوجوان شریک ہوئے، ان کے اپنے کیمپ تھے، ان میں بھی جانے کا موقع ملتا تھا۔ اس دوران وہیں سنا کہ سعودی عرب کے ایک انتہائی متمول اور مقتدر خاندان کا ایک نوجوان جہاد میں عملاً شریک ہے اور جہاد بالنفس اور جہاد بالمال کے دونوں محاذوں پر دادِ شجاعت دے رہا ہے۔ اس نوجوان کا نام اسامہ بن لادن ہے اور وہ شہزادگی کی زندگی ترک کر کے خاکساری کے ذوق کے ساتھ شب و روز کے اعمال میں مصروف ہے۔ یہ یاد نہیں کہ اس دوران اسے دیکھا یا نہیں لیکن اس کی شجاعت اور سخاوت کے واقعات مسلسل سننے میں آتے رہے تا آنکہ عالمی میڈیا نے بھی اسے ایک عظیم مجاہد اور فریڈم فائٹر کے انداز میں جہادِ افغانستان کے ہیرو کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیا۔
افغانستان سے سوویت یونین کی افواج کی واپسی، جہادِ افغانستان کے اس دور کا اختتام، سوویت یونین کے بکھرنے کا تاریخی عمل، اور جہادِ افغانستان کے منطقی نتیجے کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں ایک مستقل موضوع بحث ہیں جس کا صرف ایک پہلو یہ ہے کہ افغان مجاہدین اور ان کے ساتھ جہاد میں شریک دنیا بھر کے مجاہدین کے بارے میں عالمی پراپیگنڈے کا رخ اس طرح موڑ دیا گیا کہ انہوں نے دراصل امریکہ کی جنگ لڑی ہے اور سرد جنگ میں سوویت یونین کو شکست دینے میں امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں۔ اسی دور کی بات ہے ابھی افغانستان میں مجاہدین کی حکومت کی تشکیل کے مختلف فارمولے آزمائے جا رہے تھے اور طالبان اور القاعدہ کا دور دور تک کوئی وجود بلکہ آثار تک نہیں تھے، اسلام آباد میں بائیں بازو کے چند دانشوروں کے ساتھ ایک مجلس میں میری تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ افغان مجاہدین کو امریکہ نے تیار کیا تھا، اس نے انہیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کر کے چھوڑ دیا ہے اور افغان مجاہدین نے امریکہ کی جنگ لڑی ہے۔ جبکہ میرا موقف یہ تھا کہ جہادِ افغانستان کا آغاز افغان علماء اور مجاہدین نے اپنے ملک کی خودمختاری اور نظریاتی تشخص کے لیے کیا تھا اور کم و بیش تین برس تک وہ دیسی ہتھیاروں کے ساتھ فاقہ مستی کے عالم میں لڑتے رہے۔ جبکہ امریکہ اپنا مفاد دیکھ کر اس میں شریک ہوا اور پھر ساری دنیا اس طرف متوجہ ہوئی۔ اس لیے اس جنگ میں مجاہدین کے اہداف مختلف تھے اور امریکہ کے اہداف الگ تھے۔ ان کے درمیان اشتراکِ عمل تو ہوا جس میں امریکی کیمپ نے اپنا ہاتھ دکھا دیا کہ اپنے مقاصد حاصل کر لیے مگر مجاہدین کے مقاصد و اہداف کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہے۔
جب گفتگو کچھ آگے بڑھی تو میں نے ان دوستوں سے کہا کہ اس کا فیصلہ وقت پر چھوڑٰ دیں۔ اگر مستقبل کے پروگرام میں یہ مجاہدین امریکی ایجنڈے کا حصہ بن گئے تو میں تسلیم کر لوں گا کہ انہوں نے امریکہ کی جنگ لڑی ہے۔ لیکن اگر آنے والے دور کا نقشہ اس سے مختلف ہوا اور مجاہدین نے امریکی ایجنڈے میں فٹ ہونے سے انکار کر دیا تو آپ دوستوں کو میری بات ماننا ہوگی کہ اس جنگ میں مجاہدین کے اپنے اہداف و مقاصد تھے اور وہ امریکہ کی جنگ لڑنے کی بجائے اپنی جنگ لڑ رہے تھے۔ البتہ جنگ کی ترجیحات کے تعین میں وہ امریکہ سے بازی ابھی تک نہیں جیت پائے کہ امریکہ نے اپنی طاقت، لابنگ، ڈپلومیسی اور میڈیا کے ذریعے انہیں سرِدست کارنر کر دیا ہے۔
اس کے بعد القاعدہ سامنے آئی اور طالبان کا دور دنیا نے دیکھا۔ وہی مجاہدین جو سوویت یونین کے خلاف جہاد میں بظاہر امریکہ کے شانہ بشانہ تھے اب امریکہ کے سامنے کھڑے تھے اور تمام تر جاہ و جلال اور شان و شوکت کے باوجود امریکہ کا سانس پھولتا سب کو دکھائی دے رہا تھا۔ الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ جن دنوں جلال آباد افغانستان میں مقیم تھے میری ان سے ملاقات ہوئی، میں نے ایک رات ان کے کیمپ میں گزاری، ان سے انٹرویو لیا جو قومی اخبارات میں انہی دنوں شائع ہوا۔ خفیہ ادارے کافی عرصہ تک میرا پیچھا کرتے رہے کہ آپ وہاں تک کیسے پہنچے؟ مگر میرا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ میں جرنلسٹ ہوں میرے اس سفر کی ساری رپورٹ اخبارات میں شائع ہو چکی ہے اور میں نے کوئی خفیہ کام نہیں کیا۔ البتہ اپنے سفر کے ذرائع بتانے کا پابند نہیں ہوں او رنہ ہی بتاؤں گا۔
اس دوران جب ’’القاعدہ‘‘ تشکیل پائی تو مجھ سے بھی رابطہ کیا گیا مگر میرے کچھ تحفظات تھے۔ میں جہادِ افغانستان کے منطقی نتائج کی تکمیل اور افغانستان میں مجاہدین کی حکومت کے قیام و استحکام سے پہلے عالم اسلام میں کسی بھی اور جنگ کو ’’قبل از وقت‘‘ سمجھتا تھا اور اپنی اس رائے پر اب بھی قائم و مطمئن ہوں۔ اس لیے میں نے خاموشی میں ہی مصلحت سمجھی البتہ دنیا کے کسی بھی حصے میں جو مجاہدین خلوص کے ساتھ دین کی سربلندی اور اپنے اپنے ملک کی آزادی و خودمختاری کے لیے میدانِ عمل میں ہیں، میری دعائیں اور نیک تمنائیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہی ہیں اور آج بھی ہیں۔
الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ عالمِ اسلام بالخصوص عالمِ عرب میں عالمی استعمار کے استعماری ایجنڈے کے خلاف مزاحمت کی علامت تھے۔ انہوں نے زندگی بھر اس کے لیے پوری قوت کے ساتھ جنگ لڑی۔ ان کے طریق کار اور ترجیحات سے اختلاف ہو سکتا ہے جو ظاہر ہے کہ مجھے بھی تھا لیکن ان کے خلوص، ایثار، جدوجہد حبِ دینی، استقامت، عزم و حوصلے اور مسلسل قربانیوں سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ اور اس پر وہ ہر نیک دل مسلمان کے سلامِ محبت و عقیدت کے حقدار ہیں۔ جہاد کے اس مقدس عمل میں کون کون لوگ کہاں کہاں سے شریک ہوئے، ان کی قربانیوں اور جہد و ایثار کو دیکھیں تو بلاشبہ یہ اس دور میں اسلام کے اعجاز اور جہاد کی کشش کا خوبصورت اظہار ہے۔ میں اس نوجوان کو کبھی نہیں بھول سکتا جو ایک بار مجھے افغانستان کے ایک مورچے سے واپس پاکستان چھوڑنے آرہا تھا۔ وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا، عمر زیادہ سے زیادہ سولہ ستر سال ہوگی، میں نے پوچھا کہاں کے رہنے والے ہو؟ بتایا کہ مدینہ منورہ کا باشندہ ہوں۔ دریافت کیا کہ کب سے یہاں ہو؟ جواب دیا کہ دو سال سے ہوں۔ پوچھا کہ کب واپسی کا ارادہ ہے؟ کہا کہ جہاد میں کامیابی کے بعد ہی واپس جاؤں گا یا یہیں شہید ہو جاؤں گا۔ میں نے کہا کہ مدینہ منورہ چھوڑ کر یہاں کیوں آگئے ہو؟ اس نے کہا اس لیے کہ جہاد یہاں ہو رہا ہے، اس کے بعد مجھے اس سے کوئی اور سوال کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔
یہ نوجوان اسامہ بن لادن نہیں تھا لیکن اپنے جذبے اور قربانی کے حوالے سے وہ بھی ایک اسامہ ہی تھا، اس جیسے اسامہ بن لادن سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مجاہدین کی صفوں میں موجود ہیں۔ اس لیے اسامہ شہید تو ہوا لیکن مرا نہیں، کیونکہ وہ اب گوشت پوست کے کسی انسان کا نام نہیں رہا بلکہ حریت، جہاد اور استقامت کی علامت بن چکا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اسے جوارِ رحمت میں جگہ دیں او رخلوص و ایثار کے ساتھ جہاد کرنے والوں کو ہر جگہ کامیابی سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۶ مئی ۲۰۱۱ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter