Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

44 - 188
حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان
حضرت مولانا مفتی محمودؒ صرف ایک سیاستدان نہیں تھے بلکہ دینی علوم کے معتبر استاذ، بیدار مغز مفتی، فقیہ النفس عالم، حق گو خطیب اور شب زندہ دار عارف باللہ بھی تھے۔ اس لیے ان کی ان متنوع اور گوناگوں حیثیتوں میں سے سیاستدان اور سیاسی قائد کی حیثیت کو الگ کرنا اور اس کے امتیازات و تخصصات کو جداگانہ طور پر پیش کرنا ایک مشکل اور دشوار امر ہے۔ اور شاید یہ ان کے ساتھ ناانصافی بھی ہو کہ انہیں صرف سیاسی قائد کے طور پر سامنے لایا جائے۔
سیاست زندگی بھر حضرت مفتی صاحبؒ کا اوڑھنا بچھونا رہی ہے، انہوں نے سیاست کو مشغلہ، ہابی یا آج کے سیاسی پس منظر میں کاروبار کے طور پر نہیں بلکہ مشن اور فریضہ کے طور پر اختیار کیا اور اس کا حق ادا کر کے دکھایا۔ ان کا شمار ملک کے مقتدر اور کامیاب سیاستدانوں میں ہوتا تھا اور ان کی سیاسی قیادت کا لوہا ان کے معاصر بلکہ سینئر سیاستدانوں نے بھی مانا۔ لیکن آج سیاست اور سیاستدانوں کی اصطلاحات کے گرد مفہوم و تعارف کے جو نامانوس دائرے نمایاں ہوتے جا رہے ہیں اور جن لوازمات نے ایک سیاستدان کے لیے ناگزیر حیثیت اختیار کر لی ہے ان کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا مفتی محمودؒ کو ایک سیاسی قائد کے طور پر پیش کرتے ہوئے طبیعت ہچکچا رہی ہے اور دل کو خوف محسوس ہو رہا ہے کہ کل قیامت کے روز مفتی صاحب گریبان پکڑ کر یہ نہ کہہ دیں کہ ’’ظالم! تم تو مجھے جانتے تھے، میری خلوت و جلوت سے واقف تھے، تم نے مجھے کس صف میں کھڑا کر دیا؟‘‘
مجھے مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ ایک کارکن اور پھر ٹیم کے رکن کے طور پر طویل عرصہ کام کرنے کا موقع ملا ہے جو کم و بیش دو دہائیوں پر محیط ہے۔ میں نے مفتی صاحب کو علماء کی صف میں انہیں سیاست کے اسرار و رموز سمجھاتے اور ان کے لیے انہیں تیار کرتے دیکھا ہے، سیاستدانوں کے ساتھ معاملات طے کرتے اور ان سے اپنا حق وصول کرتے ہوئے دیکھا ہے، عوامی اجتماعات میں لوگوں کو ابھارتے اور ان کے جذبات کو جگاتے دیکھا ہے، اہل فکر و دانش کی محافل میں اسلام کی حکیمانہ ترجمانی کرتے اور اسلامی احکام و قوانین پر اعتراضات کے مسکت جوابات دیتے ہوئے دیکھا ہے، کہنہ مشق صحافیوں کے گھیرے میں ان کے تند و تیز سوالات کا خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے دیکھا ہے، مسند تدریس پر قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کے علوم و معارف کو آج کی زبان و اسلوب میں پیش کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور نصف شب تک جلسہ سے خطاب کے بعد علالت اور تھکاوٹ کے باوجود سحری کے وقت جائے نماز پر قبلہ رو بیٹھے اللہ اللہ کرتے اور آنسو بہاتے بھی دیکھا ہے۔ اس لیے میرے نزدیک مولانا مفتی محمودؒ کا تعارف محض ایک سیاسی قائد اور سیاستدان کا تعارف نہیں ہے بلکہ میں ان کے ایک کارکن اور ساتھی کے طور پر انہیں اس سے بالکل مختلف حیثیت او رنظر سے دیکھتا ہوں اور ان سطور میں ان کی اسی حیثیت کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میرے نزدیک مفتی صاحبؒ کی بنیادی حیثیت ایک عالم دین کی ہے مگر روایتی عالم دین نہیں بلکہ وہ عالم جس کے بارے میں امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ رجل یدری ویدری انہ یدری فھو عالم فاتبعوہ کہ وہ شخص جو علم رکھتا ہے اور علم کی ذمہ داری کا احساس بھی رکھتا ہے وہی صحیح معنوں میں عالم ہے اس کی پیروی کرو۔
مولانا مفتی محمودؒ ایک پختہ کار عالم دین تھے اور اس حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے نہ صرف کماحقہ آگاہ تھے بلکہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے آخر دم تک کوشاں رہے۔ حتٰی کہ اہل علم ہی کی ایک محفل میں علمی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے سیاست کو اپنے انہی فرائض کی انجام دہی کے لیے ذریعہ اور وسیلہ کے طور پر اختیار کیا تھا اور اسے منزل یا مقصود بنانے کی بجائے آخر وقت تک وسیلہ اور ذریعہ کے درجے میں ہی رکھا۔ مفتی صاحبؒ ایک عالم دین کے طور پر اس نظریاتی تحریک کے نمائندہ اور باشعور راہنما تھے جسے ولی اللہی تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس نے اس خطہ ارض میں مسلمانوں کے دینی تشخص، علوم و روایات اور ثقافت و تمدن کے تحفظ اور آزادی کے حصول کے لیے کم و بیش دو صدیوں پر محیط طویل جنگ لڑی اور دینی درسگاہوں کے ساتھ ساتھ جیل کی کال کوٹھڑیوں، پھانسی کے پھندوں اور میدان جہاد کے معرکوں کو بھی رونق بخشی۔ مفتی صاحبؒ نے اسی درسگاہ حریت سے تربیت حاصل کی اور انہی اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ وہ اپنے اساتذہ کے صرف علوم کے وارث نہیں تھے بلکہ ان کی جدوجہد اور روایات کے بھی امین تھے اور مفتی صاحبؒ کی زندگی بھر کی تگ و تاز اس بات پر گواہ ہے کہ انہوں نے اس وراثت و امانت کی حفاظت اور اسے اگلی نسل تک پہنچانے میں کوئی کمی اور کوتاہی اپنی استطاعت کی حد تک روا نہیں رکھی۔
مفتی صاحبؒ کی جدوجہد کا سب سے بڑا ہدف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کا نفاذ اور اسلامی احکام و قوانین کی عملداری رہا ہے۔ انہیں زندگی میں جب بھی کوئی فیصلہ کن موقع ملا انہوں نے اسلام کے لیے اس موقع کو استعمال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور ایک ہوشیار سیاستدان کی طرح انہوں نے موقع کی نزاکت سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ میں اس سلسلہ میں تین مواقع کا حوالہ دینا چاہوں گا۔
۱۹۷۰1- ء کے انتخابات میں جمعیۃ علماء اسلام کو صوبہ سرحد کی اسمبلی میں چالیس کے ایوان میں چار نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور دو آزاد ارکان الیکشن کے بعد جمعیۃ میں شامل ہوگئے تھے۔ اس طرح جمعیۃ کے پاس چالیس میں سے چھ سیٹیں تھیں اور صوبائی حکومت کے لیے اصل مقابلہ نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ کے درمیان تھا جن کے پاس غالباً پندرہ اور گیارہ سیٹیں تھیں۔ خان عبد الولی خان اور عبد القیوم خان صوبائی سیاست میں روایتی حریف چلے آرہے تھے اور ایک دوسرے کو صوبائی حکمران کے طور پر قبول کرنا دونوں میں سے کسی کے لیے بھی آسان نہیں تھا۔ اس لیے دونوں نے جمعیۃ علماء اسلام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کے قائد کی حیثیت سے موقع کی نزاکت کا اچھی طرح اندازہ کر لیا اور تعاون کے لیے جو شرائط عائد کیں ان میں وفاق میں دستور ساز اسمبلی میں دستور پاکستان کی ترتیب و تدوین کے دوران اسلامی امور میں جمعیۃ سے تعاون، جبکہ صوبہ میں اسلامی قوانین و احکام کے نفاذ کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ خان عبد الولی خان اور خان عبد القیوم خان دونوں نے بظاہر ایک دوسرے کے خوف میں یہ شرطیں منظور کر لیں۔ اب جمعیۃ علماء اسلام کی طرف سے نئی شرط عائد کر دی گئی کہ صوبہ میں وزیراعلیٰ بھی جمعیۃ کا ہوگا، یہ شرط بھی دونوں نے منظور کر لی۔ لیکن جمعیۃ علماء اسلام نے عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر صوبہ سرحد میں حکومت بنانے کا فیصلہ کیا اور نہ صرف مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بن گئے بلکہ عوامی نیشنل پارٹی اپنے منشور اور پارٹی مزاج کے علی الرغم دستور ساز اسمبلی میں اسلامی معاملات میں جمعیۃ کا ساتھ دینے کی پابند ہوگئی۔ جبکہ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی بیس میں سے تین نشتیں جیتنے والی جمعیۃ علماء اسلام نیشنل عوامی پارٹی کے سردار عطاء اللہ مینگل کے ساتھ شریک اقتدار ہوئی۔ تین میں سے ایک ممبر ڈپٹی اسپیکر بنا اور دوسرا صوبائی وزیر کی حیثیت سے حکومت میں شامل ہوا۔ مفتی صاحب نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اسلامی اصطلاحات کے نفاذ اور سادگی کے ساتھ حکومت کرنے کی جو مثال اس دس ماہ کے دور میں قائم کی وہ ان کی شخصیت اور جمعیۃ کی تاریخ کاا یک نمایاں باب ہے۔ اور یہ پارٹی لیڈر کے طور پر ان کی معاملہ فہمی، سیاسی تدبر اور موقع شناسی کا ایک شاندار مظاہرہ بھی ہے۔
2- دوسرا موقع دستور ساز اسمبلی میں ۱۹۷۳ء کے دستور کی تیاری کا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں منتخب ہونے والی اس دستور ساز اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت حاصل تھی اور اس کے منشور میں سوشلزم کا عنصر نمایاں تھا لیکن مولانا مفتی محمودؒ نے دستور ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر جس سیاسی ہوشمندی کا ثبوت دیا یہ اسی کا ثمر ہے کہ دستور پاکستان میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دینے کے علاوہ ملک کے تمام قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی ضمانت موجود ہے جو سیکولر لابیوں کے ایجنڈے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ دستور ساز اسمبلی میں دیگر مذہبی شخصیات بھی موجود تھیں اور دستور میں زیادہ سے زیادہ اسلامی دفعات شامل کرانے کے لیے مسلسل کوشاں تھیں لیکن فیصلہ کن حیثیت مولانا مفتی محمودؒ کو حاصل تھی۔ وہ اس طور پر کہ دستور ساز اسمبلی میں بلوچستان سے چار ارکان منتخب ہوئے تھے جن میں سے تین نیشنل عوامی پارٹی کے تھے اور ایک کا تعلق جمعیۃ علماء اسلام سے تھا۔ یہ چار کے چار مفتی صاحب کے زیر اثر تھے، اور کہنے کو یہ چار تھے لیکن ایک مکمل صوبے اور وفاق کی ایک اکائی کی نمائندگی کر رہے تھے۔گویا ان چار ارکان کی صورت میں مفتی صاحبؒ کے پاس وفاق کی ایک مکمل اکائی کی قوت موجود تھی جن کی مرضی کے بغیر کوئی دستور پاس نہیں ہو سکتا تھا۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی اکثریت کے زعم میں اپنے منشور اور نظریات کے مطابق دستور تشکیل دینے پر مصر تھی اور ایوان میں من مانی کر رہی تھی۔ چنانچہ مفتی صاحب کی قیادت میں اپوزیشن نے دستور ساز اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا جو کہ صرف اپوزیشن کا بائیکاٹ نہیں تھا بلکہ اس میں وفاق کی ایک مکمل اکائی کا بائیکاٹ بھی شامل تھا۔ اس پر بھٹو حکومت مذاکرات پر مجبور ہوئی اور ان مذاکرات میں حکومت کو اپوزیشن کے دیگر مطالبات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان اسلامی دفعات کو بھی دستور کے حصہ کے طور پر قبول کرنا پڑا جو آج بھی دستور میں شامل ہیں اور جنہیں پاکستان کے دستور سے نکالنے اور غیر موثر بنانے کے لیے نہ صرف ملک کی سیکولر لابیاں بلکہ عالمی استعماری قوتیں بھی مسلسل پیچ و تاب کھا رہی ہیں۔
3- تیسرا مرحلہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ان کی حکومت میں شامل ہونے اور اس شمولیت کو نفاذ اسلام کے لیے ہر ممکن طور پر مفید اور نتیجہ خیز بنانے کا تھا۔ مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں پاکستان قومی اتحاد نے شمولیت کا فیصلہ کیا۔ یہ شمولیت سیاسی طور پر درست تھی یا نہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے جس پر مستقل گفتگو کی ضرورت ہے۔ البتہ اس مرحلہ پر صرف یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مارشل لاء حکومت میں شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ کرنے کے لیے جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کا جو اجلاس راولپنڈی میں حکومت میں شامل ہونے سے پہلے ہوا تھا اس میں راقم الحروف نے ضیاء حکومت میں شمولیت کی نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ اس پر طویل بحث کی تھی اور شمولیت کے حق میں مجلس شوریٰ کے فیصلہ کے خلاف اپنا اختلافی نوٹ بھی ریکارڈ کرایا تھا۔ تاہم قومی اتحاد اور اس کے ساتھ جمعیۃ علماء اسلام نے بھی حکومت میں شمولیت اختیار کی اور مولانا مفتی محمودؒ عوامی جلسوں میں اس شمولیت کا یہی جواز پیش کرتے رہے کہ ہمارا مقصد صرف اسلام کا نفاذ ہے وہ کسی بھی ذریعے سے آئے ہم اسے قبول کریں گے۔ لاہور کے ایک اجلاس میں جو طویل خطاب کیا اس میں انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ سیاسی عمل، جمہوری جدوجہد اور انتخابات ہمارا مقصد نہیں بلکہ ذریعہ ہیں جن کے ذریعے ہم نفاذ اسلام کی منزل حاصل کرنا چاہتے ہیں اس لیے ہمیں اگر اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ مل جاتا ہے اور ہم اس راستے سے منزل تک جلدی پہنچ سکتے ہیں تو ہمیں اسے قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے اور ہم نے اپنے سیاسی کیریئر کو داؤ پر لگاتے ہوئے مارشل لاء حکومت میں اسی لیے شمولیت اختیار کی ہے کہ اگر اس راستہ سے اسلام نافذ ہو سکتا ہو تو اس کو بھی آزما لیا جائے۔
چنانچہ ضیاء حکومت کی طرف سے حدود آرڈیننس، وفاقی شرعی عدالت اور دیگر امور کے بارے میں چند اسلامی اصلاحات کے نفاذ پر مفتی صاحب نے نہ صرف ان اقدامات کی حمایت میں لاہور میں بہت بڑے جلوس کی قیادت کی بلکہ ملک بھر میں بیسیوں اجتماعات میں لاکھوں کے مجمع کے سامنے ان اقدامات کا دفاع کیا۔ نفاذ اسلام کے لیے مارشل لاء حکومت کے یہ اقدامات موثر کیوں نہ ہوئے یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر کھلے دل سے بحث ہونی چاہیے لیکن اس حوالہ سے اس موقع پر یہ عرض کر رہا ہوں کہ مولانا مفتی محمودؒ نے نفاذ اسلام کی جدوجہد کے قائد کی حیثیت سے اپنے مقصد کے حصول کے لیے جو راستہ بھی ممکن نظر آیا اسے استعمال کرنے میں تامل سے کام نہیں لیا اور اس کے لیے اپنے سیاسی کیریئر کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔
الغرض حضرت مولانا مفتی محمودؒ ایک روایتی سیاسی رہنما نہیں بلکہ تحریک ولی اللہی کے باشعور نمائندے اور پاکستان کے نفاذ اسلام کی جدوجہد کے ایک ہوشمند قائد تھے جنہوں نے اپنی سیاسی قوت کو محدود اور کم ہونے کے باوجود اپنے مقاصد کے لیے کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔ اس میں جہاں ان کے علمی تبحر، سیاسی تدبر، جرأت و بے باکی اور حکمت و دانش کا نمایاں حصہ ہے وہاں میرے نزدیک سب سے بڑا کردار ان کی اس اخلاقی بلندی کا ہے کہ وہ کسی حکومت یا سیاسی قوت کے اس درجہ میں احسان مند نہیں تھے کہ اس سے اپنے مشن اور پروگرام کی بات کرتے ہوئے انہیں کوئی حجاب یا رکاوٹ محسوس ہو۔ وہ بے لوث اور قناعت پسند سیاسی رہنما تھے، اسی صاف دامنی کی وجہ سے انہیں ملک کے علمی، دینی اور سیاسی حلقوں کا اعتماد حاصل تھا اور اسی اعتماد نے اس پیش رفت اور کامیابیوں کی راہ ہموار کی جو ان کی زندگی کے نمایاں ابواب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ نفاذ اسلام کی جدوجہد کی قیادت کا آج کے دور میں ایک صحیح اور آئیڈیل نمونہ تھے، خدا کرے کہ ان کی روایات اور طرز سیاست کو اگلی نسل تک اصلی حالت میں منتقل کرنے کی کوئی صورت نکل آئے۔ آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
نومبر ۱۹۹۷ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter