Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

46 - 188
حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ
حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی قدس اللہ سرہ العزیز کو میں نے پہلی بار 20 اکتوبر 1960ء کو دیکھا تھا جب میرا حفظ قرآن کریم مکمل ہوا۔ میں نے قرآن کریم سب سے پہلے اپنے والد محترم اور والدہ مرحومہ سے پڑھنا شروع کیا، پھر جب مرکزی جامع مسجد گکھڑ منڈی میں مدرسہ تجوید القرآن کا قیام عمل میں لایا گیا تو وہاں حفظ کا آغاز کیا جو اکتوبر 1960ء میں مکمل ہوا۔ میرے استاد محترم قاری محمد انور صاحب نے، جو آج کل مدینہ منورہ کے ایک مدرسہ میں قرآن کریم کی تدریس میں مصروف ہیں، اس موقع پر اپنے دو اساتذہ حضرت مولانا قاری فضل کریم صاحبؒ اور حضرت مولانا قاری سید حسن شاہ صاحبؒ کو مدعو کیا ہوا تھا اور ایک تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا تاکہ میں ان بزرگوں کو آخری سبق سناؤں۔ اچانک اس روز حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ صوبہ سرحد کے کسی شہر سے واپس جاتے ہوئے پہلے گکھڑ اور پھر گوجرانوالہ میں رکے تو والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے انہیں اس تقریب کے لیے روک لیا۔ اور اس طرح مجھے اپنا آخری سبق حضرت درخواستیؒ کو سنا کر ان سے تلمذ کا شرف حاصل کرنے کی سعادت مل گئی۔ سورۃ المرسلات کا دوسرا رکوع میرا آخری سبق تھا جو میں نے حضرت درخواستیؒ اور مندرجہ بالا تینوں بزرگوں کو ایک عام اجتماع میں سنایا۔ شاید یہ ان حضرات کا رعب تھا کہ میں اس چھوٹے سے سبق میں بھی بھول گیا اور سناتے ہوئے ایک آیت مجھ سے رہ گئی۔
اس کے تقریباً دو برس بعد کی بات ہے جب میں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں زیر تعلیم تھا، ایک روز معلوم ہوا کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں تشریف لائے ہیں۔ میں بھی زیارت و ملاقات کی نیت سے وہاں پہنچا، وہ عقیدت مندوں کے ہجوم میں گھرے ہوئے تھے، میں ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ خیال تھا کہ جب ہجوم کم ہوگا تو مصافحہ کر لوں گا۔ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے نظر پڑتے ہی مجھے آواز دے کر بلوایا اور کہا ’’او! ادھر آؤ اب ملتے بھی نہیں ہو‘‘۔ میں نے قریب ہو کر مصافحہ کیا تو انہوں نے وہ آیت پڑھی جو میں آخری سبق میں بھول گیا تھا۔ اور پوچھا کہ اب یہ آیت یاد ہے یا نہیں؟ میرے لیے اتنی بات ہی کافی تھی کہ اس بزرگ کو دو تین سال قبل ایک عام اجتماع میں سبق سنانے والے طالب علم کا چہرہ بھی یاد ہے اور یہ بھی یاد ہے کہ وہ سبق سناتے ہوئے کون سی آیت بھول گیا تھا۔
اس کے چند برس بعد اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہوا کہ جہلم میں جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام کا سالانہ جلسہ تھا۔ حضرت درخواستیؒ اس جلسہ میں خطاب کے لیے آئے ہوئے تھے اور میں بھی ایک سامع کی حیثیت سے وہاں موجود تھا۔ حضرت درخواستیؒ جلسہ گاہ میں پہنچے تو بے شمار لوگ قطار میں لگے ان سے باری باری مصافحہ کر رہے تھے۔ میں بھی لائن میں لگ گیا اور رومال کے ساتھ اپنے منہ کو اس طرح ڈھانپ لیا کہ آنکھیں اور چہرے کا کچھ حصہ نظر آرہا تھا، اس خیال سے کہ پہچان لیں گے تو کہیں پھر سبق والی بات نہ کہہ دیں۔ میری باری آئی، چلتے چلتے مصافحہ کیا تو میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ ’’او! اب چھپتے بھی ہو، سبق یاد ہے؟‘‘
یہ ان کی بے پناہ قوت حافظہ اور یادداشت کا اظہار بھی تھا اور محبت و شفقت کا مظاہرہ بھی جو ان کے ہر عقیدت مند کے حصہ میں ہمیشہ آتا رہا ہے۔ وہ پرانی وضع کے ایک نیک دل، سادہ منش اور صاف گو عالم دین تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ انہیں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے بعد جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا امیر منتخب کیا گیا تو بہت سے حضرات متعجب ہوئے کہ وہ اس ڈھب کے آدمی نہیں ہیں اور انہیں آج کی سیاست سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے جس جرأت کے ساتھ علماء کے اس قافلہ کی قیادت کی وہ تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔
وہ اپنے ذوق کے لحاظ سے ’’فنا فی الحدیث‘‘ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو یاد کرنا، ہر وقت ان کا تذکرہ کرتے رہنا، اور ہر موقع پر جناب نبی اکرمؐ کی کوئی نہ کوئی حدیث سنا دینا ان کے مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔ انہیں حافظ الحدیث کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا اور بلاشبہ انہیں اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ احادیث یاد کرنے کا شرف حاصل تھا۔ ایک موقع پر یاد پڑتا ہے کہ کسی شخص نے ان سے سوال کیا کہ کسی کو آپ سے زیادہ حدیثیں بھی یاد ہیں؟ تو غالباً ان کا جواب یہ تھا کہ یہاں تو نہیں البتہ مدینہ منورہ میں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی تھی جنہیں مجھ سے زیادہ حدیثیں یاد تھیں۔ کافی عرصہ بعد پتہ چلا کہ یہ خاتون شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ کی دختر محدثہ امۃ اللہ دہلویہؒ تھیں جنہوں نے حجاز مقدس میں نصف صدی تک علم حدیث کی مسند تدریس آباد رکھی اور بڑے بڑے محدثین ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کر کے ان سے روایت حدیث کی اجازت لینے پر فخر کیا کرتے تھے۔
حضرت درخواستیؒ کا احادیث نبویہؓ کے ساتھ شغف انہیں اپنے سب معاصرین میں ممتاز کیے ہوئے تھا۔ وہ جب رسول اللہؐ کا تذکرہ کرتے یا آپؐ کی کوئی حدیث سناتے تو اکثر ان کی آنکھوں میں آنسو آجایا کرتے تھے اور وہ صرف خود نہیں روتے تھے بلکہ ان کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے بھی آنسوؤں کو روکنا مشکل ہوجایا کرتا تھا۔ رسول اللہؐ کا تذکرہ کرتے ہوئے اور آپؐ کی احادیث سناتے ہوئے انہیں نہ وقت گزرنے کا کوئی احساس ہوتا تھا اور نہ ہی گرد و پیش کا کوئی ہوش رہتا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی مدرسہ کے سالانہ جلسہ میں رات کو خطاب کر رہے ہیں اور ذکرِ یارؐ میں اس قدر محو ہیں کہ صبح کی اذان کا وقت ہوگیا ہے۔ وہ روایتی طرز کے مقرر نہیں تھے اور نہ ہی ان کی گفتگو میں کوئی ربط اور ترتیب ہوتی تھی۔ لیکن حدیث نبویؐ کے ساتھ ان کے جذب و مستی کا یہ عالم تھا کہ لوگ گھنٹوں ان کے سامنے بیٹھے جھومتے اور سبحان اللہ کا ورد کرتے رہتے تھے۔ وہ آخری وقت تک جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر رہے اور مجھے ان کی امارت میں کم و بیش تیس برس تک ایک کارکن اور مختلف مناصب کے ذمہ دار کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔
عام جلسوں، خصوصی اجلاسوں، نجی محافل، اور تنہائی کی ملاقاتوں کا شمار اندازے سے بھی کرنا چاہوں تو میرے بس میں نہیں ہوگا۔ انہیں خوشی اور ناراضگی دونوں حالتوں میں دیکھا اور خلوت و جلوت کے کم و بیش ہر انداز کا مشاہدہ کیا۔ لیکن ایک کیفیت جس میں کسی حالت میں بھی فرق نہیں دیکھا وہ ان کی دینی حمیت تھی۔ وہ دین کے معاملہ میں قطعی بے لچک تھے، گھر میں بھی، جماعت کی خصوصی مجالس میں بھی، اور عام اجتماعات میں بھی۔ اور اس بارے میں وہ کسی سے رعایت نہیں کرتے تھے، وہ جس چیز کو ناجائز سمجھتے تھے کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی ان سے اس کے بارے میں لچک کا تقاضا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا۔
نفاذ شریعت اور تحفظ ختم نبوت کے لیے جدوجہد کو انہوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد قرار دے رکھا تھا۔ عام اجتماعات میں سب سے زیادہ انہی موضوعات پر گفتگو کرتے۔ جس علاقہ میں جاتے وہاں کے علماء اور دینی کارکنوں کو اس جدوجہد کے لیے تیار کرتے۔ ان سے عام اجتماعات میں عہد لیتے اور بعض کی دستار بندی کراتے۔ جس عالم یا کارکن کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے اس کے سر پر سب کے سامنے پگڑی باندھتے اور نفاذ شریعت کے لیے کام کرنے کا وعدہ لیتے۔ یہ ان کا حوصلہ افزائی کا مخصوص انداز تھا جسے ان کے عقیدت مند اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے۔ بہت سے علماء اور کارکنوں نے وہ رومال اور دستاریں برکت کے لیے سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں جو کسی نہ کسی موقع پر حضرت درخواستیؒ نے ان کے سر پر بندھوائی تھیں۔ خود میرے ساتھ کئی بار اس شفقت کا مظاہرہ فرمایا۔
ایک بار مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ان کا بیان تھا، حسب روایت بہت سے علماء اور کارکنوں کی دستار بندی کی پھر مجھے آواز دی۔ مگر جب میں پہنچا تو دستاریں اور رومال ختم ہو چکے تھے۔ سردیوں کا موسم تھا انہوں نے اپنے سر پر گرم ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر رومال بندھا تھا، وہ رومال کھول کر ٹوپی اتاری اور میرے سر پر رکھ دی۔ یہ ٹوپی اب بھی میرے پاس محفوظ ہے اور کبھی کبھی تبرک کے لیے پہنا کرتا ہوں۔ بعد میں کئی مواقع پر انہوں نے اس کا تذکرہ کیا اور مختلف مجالس میں یوں کہا کہ ’’میں نے راشدی والوں کو اپنی ٹوپی پہنا دی ہے اور اب اڑا پھرتا ہے۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میں اس وقت جو کچھ بھی ہوں چند بزرگوں کی دعاؤں اور شفقتوں کے باعث ہوں۔ ورنہ اپنے دامن اعمال کی طرف دیکھتا ہوں تو اس میں شرمندگی اور حسرت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
نفاذ شریعت اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کلمہ حق بلند کرنے اور علماء اور کارکنوں کو اس کی خاطر تیار کرتے رہنے کے علاوہ قدرت نے جو خصوصی ذوق حضرت درخواستیؒ کو ودیعت کیا تھا وہ دینی مدارس کا قیام تھا۔ جس علاقے میں جاتے دینی مدارس کی امداد کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتے۔ مدارس کے سالانہ اجتماعات میں خود اپیل کر کے چندہ کراتے، جہاں گنجائش ہوتی اپنی جیب سے بھی دیتے۔ اپنے عقیدت مندوں کا نام لے لے کر انہیں جلسے میں کھڑا کرتے اور ان سے مدرسے کے لیے چندے کی اپیل کرتے۔ جہاں مدرسہ نہ ہوتا وہاں دینی درسگاہ قائم کرنے کی ترغیب دیتے اور کوشش کرتے کہ ان کی موجودگی میں ہی مدرسے کے قیام کی طرف عملی پیش رفت ہو جائے۔ ان کے ایک رفیق سفر میاں محمد عارف مرحوم واقعہ سناتے ہیں کہ قبائلی علاقہ کے سفر میں وہ ایک جگہ رکے تو لوگ ان کا نام سن کر جمع ہوئے۔ ایک صاحب حیثیت شخص نے انہیں اپنے گھر چلنے اور چائے پینے کی دعوت دی۔ اس سے پوچھا کہ یہاں کوئی دینی مدرسہ ہے؟ جواب ملا کہ نہیں۔ اس پر کہا کہ پہلے مدرسہ قائم کرنے کا وعدہ کرو پھر تمہارے گھر چلیں گے۔ اس نے وعدہ کر لیا۔ گھر پہنچے تو کہا کہ نیکی کے کام میں دیر نہیں کر نی چاہیے اس لیے مدرسہ کے لیے جگہ مخصوص کر دو۔ اس نے اپنے گھر کے ساتھ اپنی زمین میں ایک ٹکڑا مخصوص کر دیا۔ حضرت درخواستیؒ نے کہا کہ اب مزید دیر کس بات کی ہے؟ دو چار اینٹیں لاؤ کہ مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے۔ وہ اینٹیں لایا اور مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ اس طرح وہ دوران سفر اس جگہ تھوڑی دیر آرام کے لیے رکے تھے کہ وہاں ایک دینی مدرسے کا آغاز کر کے آگے بڑھ گئے۔
افغانستان میں روس کی مسلح افواج کی آمد کے بعد جہاد افغانستان کا آغاز ہوا تو حضرت درخواستیؒ نے افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقہ کا طوفانی دورہ کیا جہاں ان کے مرید اور شاگردوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ جہاد افغانستان کی حمایت میں پرجوش بیانات جاری کر کے پورے علاقہ میں جہاد کے حق میں فضا گرم کر دی، جس کے اثرات مدت تک محسوس کیے جاتے رہے۔ افغان مجاہدین کے ایک سرگرم راہنما مولوی نصر اللہ منصور شہیدؒ ایک بار شیرانوالہ لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی اجلاس کے موقع پر آئے اور کہا کہ میں حضرت درخواستیؒ کی زیارت کے لیے آیا ہوں جنہوں نے قبائلی علماء اور عوام کو جہاد افغانستان کی حمایت کے لیے تیار کر کے ہمارا راستہ صاف کر دیا ہے۔ حضرت درخواستیؒ آخر وقت تک علالت، ضعف، اور نقاہت کے باوجود جہاد افغانستان کے لیے فکرمند رہے اور اس سلسلہ میں بہت سے اجتماعات میں شریک ہو کر خطاب کیا۔ایک موقع پر اسلام آباد میں افغان مجاہدین کی سات بڑی جماعتوں کے سربراہوں کو جمع کر کے انہیں آپس میں متحد رہنے اور دشمن کی سازشوں سے خبردار رہنے کی تلقین کی۔ ساتوں بڑے افغان لیڈر حضرت درخواستیؒ کے سامنے سر جھکائے بیٹھے تھے۔ لیکن جنہیں خانہ کعبہ کے اندر کیا ہوا معاہدہ متحد نہ رکھ سکا حضرت درخواستیؒ کی تلقین ان پر کیا اثر کر سکتی تھی؟
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۲۶ اگست ۱۹۹۸ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter